ترک سیاست کے نقصانات

ترک سیاست کے نقصانات:

          جس طرح ایک گھڑی اپنے تمام تر پرزوں کی کارکردگی کے بغیر نہیں چل سکتی اسی طرح اسلام بھی اپنے تمام تر سیاسی، معاشی، اخلاقی، تہذیبی، قانونی اور دیگر احکام کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اگر گھڑی کا ایک پرزہ خراب ہوجائے تو ساری کی ساری گھڑی متاثر ہوتی ہے اسی طرح اگر اسلام کے کسی ایک نظام کو ترک کردیا جائے تو اس سے سارے کا سارا اسلام نقصان سے دوچار ہوتا ہے۔

          صالحین کا سیاست سے لاتعلق ہو جانا اسلام کے لیے شدید ترین نقصان کا موجب ہے ۔ اس لاتعلقی کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس بات سے قطعا کوئی غرض نہیں کہ ملک میں فرعون کی حکومت آئے یا موسی کی ،نمرودکی حکومت آئے یا ابراہیم کی، ابوجہل کی حکومت آئے یا ابوبکر کی ، یزید کی حکومت آئے یاحسین کی ، ملک ٹوٹ جائے یا قائم رہے ،حکومت غیراسلامی قانون پاس کرے یا اسلامی، سودی نظام چلائے یا غیر سودی، عالمی طاقتوں سے قرض اٹھائے یا نہ اٹھائے ملکی نظام حکومت جمہوری ہو یا ملوکی ، عدالتی قانون انگریزی ہو یا ہندوانہ، معیشت چاہے افراط کا شکار ہو یا تفریط کا، لوگوں کی جان مال عزت محفوظ ہوں یا خطرے کی حالت میں، خلق خدا کو روٹی کپڑا مکان کی ضروریات میسر ہوں یا قحط کی حالت ہو، عوام کو علم عدل علاج‘‘ کے حقوق میسر ہوں یا در بدر کی ٹھوکریں، بین الاقوامی سطح پر صلح وجنگ کی پالیسیاں مفید ہوں یا مضر خودسوچیے کہ یہ لاتعلقی اسلام کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ ۔ جب اسلام نے ہمیں ایک کامل نظام سیاست عطا کر دیا ہے تو اس کے ہوتے ہوئے معاشرے میں غیر اسلامی نظام ہائے سیاست کا وجود اہل اسلام کے لیے کی فکریہ  ہے۔

          احیاء العلوم میں حجۃالاسلام امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اَلْقُرْآنُ وَالسُّلْطَا نُ تَوْاَمَانِ لَا يَفْتَرِقَانِ یعنی قرآن اور سیاست آپس میں جڑواں ہیں۔ نہ قرآن سیاست سے جدا ہے اور نہ سیاست قرآن سے جدا ہے۔ قرآن بنیاد ہے اور سیاست اس کی محافظ ہے۔ اگر محافظ نہ ر ہے تو بنیاد بھی منہدم ہو جاتی ہے۔

          شرف ملت علامہ عبدالحکیم شرف قادری اپنی کتاب مقالاتِ شرف قادری کے مضمون نظام مصطفی کردار سے نہیں، اقتدار سے آئے گا“ میں لکھتے ہیں۔

           ’’نظام مصطفی کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق خدا کو اسلامی احکام کا پابند بنادیا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ  یہ کام انفرادی طور پرنہیں اجتماعی طور پر ہو گا اور اجتماعیت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک کوئی اختیار شخصیت کنٹرول کرنے کے لیے موجود نہ ہو الله تعالی فرماتا ہے۔

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۔

) وہ لوگ کہ جب ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں، زکوة دیں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔)

نماز اور زکوة کا قائم کرنا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنانظام مصطفیٰ ﷺ ہے۔ جسے اقتدار پرمعلق کیا گیا ہے۔ اقتدار ہوگا تو یہ سب کچھ نافذ ہوگا۔ اقتدارنہیں ہو گا تو آپ اپنی نماز پڑھ سکتے ہیں، اپنی ز کوۃ بھی دے سکتے ہیں لیکن نماز اور زکوة کا نظام نافذ نہیں کر سکتے۔ مکہ مکرمہ  میں نبی اکرم ﷺنے اعلان نبوت کے بعد تیرہ سال بسر کیے۔ کردار اس وقت بھی موجود تھا لیکن نظام مصطفیﷺ مدینہ طیبہ میں اس وقت نافذ ہواجب اقتدار قائم ہوا۔

غور فرمائے نظام مصطفیٰ ﷺمیں احکام خداوندی نافذ کیے جائیں گے ،نماز جمعہ، جماعت اور عیدین کا اہتمام کیا جائے گا، جھگڑوں کو مٹایا جائے گا، ظالموں سے مظلوموں کاحق دلایا جائے گا، چوروں، زانیوں، شرابیوں، ڈاکوؤں پر حدود ِشرعیہ نافذ کی جائیں گی، اسلامی ممالک کی سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی ، کافروں سے جہاد کیا جائے گا، عدل وانصاف قائم کیا جائے گا۔ اور یہ سب کچھ اقتدار کے بغیر نامکن ہے“۔(

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے