سوال:آپ نے کہاکہ اوجھڑی کھانابھی شرعاً ناجائزومکروہ ہے توپھراس حدیثِ مبارک میں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اوجھڑی پیش کرنے اورآپ کے تناول فرمانے کاکیامطلب ہوگا؟
حدیثِ مبارک یہ ہے:
’’حدثنا محمد بن عبد اللہ الحضرمی ثنا عبد اللہ بن الحکم بن أبی زیاد القطوانی ثنا عبید اللہ بن موسی عن إبراہیم بن إسماعیل عن حبیبۃ بنت سمعان عن نسیکۃ أم عمرو بن جلاس قالت انی لعند عائشۃ وقد ذبحت شاۃ لہا فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی یدہ عصیۃ فألقاہا ثم ہوی الی المسجد فصلی فیہ رکعتین ثم ہوی إلی فراشہ فانبطح علیہ ثم قال ہل من غداء فأتیناہ بصحفۃ فیہا خبز شعیر وفیہا کسرۃ وقطعۃ من الکرش وفیہا الذراع قال فأخذت قطعۃ من الکرش وانہا لتنہشہا إذ قالت ذبحنا شاۃ الیوم فما أمسکنا غیر ہذا قالت یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا بل کلہا امسکت الا ہذا‘‘؟
ترجمہ:ہمیں محمدبن عبداللہ حضرمی نے حدیث بیان کی،انہوں نے کہاکہ عبد اللہ بن حکم بن ابی زیادقطوانی نے حدیث بیان کی اورانہیں عبیداللہ بن موسی نے ابراہیم بن اسماعیل سے اورانہوں نے حبیبہ بنت سمعان سے اورانہوں نے نسیکہ ام عمروبن جلاس سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایامیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہاکے پاس تھی کہ ان کے لئے ایک بکری ذبح کی گئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے کہ ان کے ہاتھ میں چھوٹا عصا تھاانہوں نے اسے رکھااورمسجد کی طرف گئے اوردورکعتیں وہاں پڑھیں، پھراپنے بسترکے طرف تشریف لائے اوراس پرلیٹ گئے،پھر فرمایاکچھ کھانے کوہے؟تو آپ کے بارگاہ میں ایک بڑا پیالہ پیش کیاگیاجس میں جو کی روٹی اورہڈی مع گوشت کے اوراوجھڑی کاٹکڑاتھااوراس میں بکری کادست تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہانے اوجھڑی کاایک ٹکڑالیااوراسے دانتوں سے کاٹناشروع کیا۔اسی وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:کہ آج ہم نے ایک بکری ذبح کی ہے اس کھانے کے علاوہ بقیہ کچھ نہیں رکھا(یعنی سب صدقہ کردیا ہے)حضور علیہ السلام نے فرمایا: نہیں بلکہ سب کچھ رکھ لیا(یعنی آخرت کے لئے رکھ لیا)سوائے اس بچے ہوئے کے.
جواب: اوجھڑی کھانامکروہ تحریمی ہے،کیونکہ یہ خبائث(ناپاک وگندی اشیاء)میں سے ہے،اوراعضاء کے مکروہ ہونے کی علتِ خباثت خود امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمائی۔اوریہ بات ہرذی عقل جانتاہے کہ حلال جانورکے اعضاء مخصوصہ مثلاعضوتناسل اورفرج وغیرہ ان کا کھاناحرام وناجائز ہے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’ما یحرم اکلہ من اجزاء الحیوان الماٗکول سبعۃ الدم المسفوح والذکر والانثیان والقبل والغدۃ والمثانۃ والمرارۃ ‘‘
ترجمہ:حلال جانور میں سات اجزاء ایسے ہیں جن کاکھاناحرام ہے(1)بہنے والاخون(2)ذکریعنی عضوتناسل(3)کپورے(4)فرج(شرمگاہ)(5)غدود (6)مثانہ(7)پتہ۔‘‘
(فتاوی عالمگیری ،ج5،ص290)
مذکورہ اشیاء میں سے شرمگاہیں یعنی ذکروفرج کی حرمت کی علت پراگرغورکیاجائے تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ا ن کے ناجائزہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں مقامات سے گندگی گزرتی ہے اورفطرت ِسلیمہ اس سے نفرت کرتی ہے اس وجہ سے شریعت ِمطہرہ نے ان کے کھانے کوحرام فرمادیاجیساکہ ان سات اشیاء کی حرمت علت بیان کرتے ہوئے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
’’الدم حرام بالنص،والستۃ نکرھھالانھاتکرھھاالطبائع‘‘
فرمایا:کہ خون نص کے ذریعے حرام اورباقی چھ چیزوں کوہم مکروہ سمجھتے ہیں کیونکہ طبائع ان سے نفرت کرتی ہیں۔
( فتاوی رضویہ بحوالہ رحمانیہ، ج20،ص239)
اوراسی یعنی فتاوی رضویہ میں ہے:
’’ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:خون توحرام ہے کہ قرآن عظیم میں اس کی تحریم منصوص،اورباقی چیزیں میں مکروہ سمجھتا ہوں کہ سلیم الطبع لوگ ان سے گھن کرتے ہیں اور انہیں گندی سمجھتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ "
ترجمہ:(یہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)گندی چیزیں ان پرحرام کرے گا۔
(پارہ9،سورۃ الاعراف،آیت157)
حاشیۂ علامہ طحطاوی میں ہے:
’’قال ابو حنیفۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اما الدم فحرام بالنص واکرہ الباقیۃ لانھا مما تستخبثہ الانفس،قال اللہ تعالیٰ”وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ "
ترجمہ:امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جبکہ خون کی حرمت تو نص(قرآن کی عبارت)سے ثابت ہے،اورباقی کومیں مکروہ(تحریمی)سمجھتاہوں ،کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں لوگ انہیں گندی سمجھتے ہیں،اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا”وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ”یعنی اوریہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان پرسب گندی چیزیں حرام فرمائے گا۔
اسی طرح ینابیع میں ہی کماسیأتی،اورمختارومعتمدیہ ہے کہ کراہت سے مراد کراہت تحریمی ہے،یہاں تک کہ امام ملک العلماء ابوبکرمسعود کاسانی قدس سرہ نے بلفظ حرمت تعبیر کی۔
(فتاوی رضویہ،کتاب الذبائح،ج20،ص234,235)
اوراگردیکھاجائے تویہی گندگی کی علت اوجھڑی میں بھی پائی جاتی ہے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ کہ ذکروفرج توفقط نجاست کی گزرگاہیں ہیں جبکہ اوجھڑی توگندگی کے ٹھہرنے اورجمع ہونے کا مقام ہے لہٰذایقیناًفطرت ِسلیمہ اس کو کبھی بھی اچھانہیں سمجھے گی بلکہ اس سے نفرت ہی کرے گی چنانچہ مذکورہ آیتِ مبارکہ میں خبیث کاموں سے مرادحرام اشیاء مثلامردار،خون وغیرہ ہیں اور ان کے علاوہ وہ اشیاء بھی داخل ہیں جو فطرتِ سلیمہ کے خلاف ہو ں۔
تفسیر کبیر میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں :
’’قال عطاء عن ابن عباس یرید المیتۃوالدم ،واقول کل مایستخبثہ الطبع وتستقذرہ النفس کان تناولہ سببا للالم‘‘
عطاء نے حضر ت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ اس سے مرادمرداراورخون ہے،اورمیں کہتاہوں کہ ہروہ چیزجسے طبیعت براجانے اورنفس گنداسمجھے،اس کاکھاناتکلیف کاباعث ہو(تووہ خبائث میں شامل ہے)۔
(تفسیر کبیر ،ج5،ص380)
اوراسی طرح تفسیرِ خازن میں ا سی آیت کی تفسیر میں ہے:
’’ھو کل مایستخبثہ الطبع وتستقذرہ النفس‘‘
’’اوراس سے مرادہروہ فعل ہے جس کو فطرت سلیمہ براسمجھے ‘‘۔
(تفسیر خازن، ج2،ص258)
فتاوی رضویہ میں ہے:
’’کرش یعنی اوجھڑی اورامعاء یعنی آنتیں بھی اس حکمِ کراہت میں داخل ہیں،بیشک دُبرفرج وذکرسے اورکرش وامعاء مثانہ سے اگر خباثت میں زائدنہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں،فرج وذکراگرگزرگاہِ بول(پیشاب)ومنی ہیں دُبرگزرگاہ سرگین،مثانہ اگرمعدنِ بول ہے شکنبہ ورودو مخزنِ فرث ہیں،اب چاہے اسے دلالۃ النص سمجھئے خواہ اجرائے علتِ منصوصہ۔‘‘
(فتاوی رضویہ ،ج20، ص238 )
لہذامسلمانوں پرلازم ہے کہ گندی وخبیث چیزیں خواہ وہ اوجھڑی جوکہ منبع ومجمعِ نجاست ہے،ہی کیوں نہ ہواس سے دوررہیں کہ شریعت نے اسی کاانہیں حکم دیاہے اوریہی ان کی شان کے لائق ہے جیساکہ قرآنِ مجیدفرقانِ حمیدمیں پاک وصاف مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد ِ رباری تعالیٰ ہے:
"وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِۚ-"
ترجمہ:اورستھریاں ستھروں کے لیے اورستھرے ستھریوں کے لیے‘‘۔
(پ18،سورۃ النور،آیت26)
سوال میں مذکورحدیث کاجواب
اورسوال میں مذکورحدیث کوحکماًبطورِ جوازکے نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں ایک راوی’’ابراہیم بن اسماعیل‘‘ہے جس کے بارے میں محدثین جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ راوی ضعیف اورکثیرالوھم ہے اورفقہائے کرام فرماتے ہیں کہ عقائداوراحکامِ حلال وحرام کے ثبوت کے لئے حدیثِ ضعیف سے استدلال درست نہیں جیساکہ سیدی اعلیٰ امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں:
’’یہیں سے ظاہرہواکہ یہ حدیث قابلِ احتجاج نہیں کہ حدیثِ ضعیف دربارۂ احکام حجت نہیں ہوتی‘‘
مزیداسی میں ایک مقام پرارشادفرماتے ہیں:
’’غیرعقائدواحکامِ حلال وحرام میں حدیثِ ضعیف بھی بالاجماع حجت ہے‘‘۔
(فتاوی رضویہ، ج9،ص513،651)
اسی فتاوی رضویہ میں ہے:
’’(دربارۂ احکام ضعیف کافی نہیں)دوسرادرجہ احکام کاہے کہ ان کے لئے اگرچہ اُتنی قوت درکارنہیں پھربھی حدیث کاصحیح لذاتہ خواہ لغیرہ یاحسن لذاتہ یاکم سے کم لغیرہ ہوناچاہیے،جمہورعلماء یہاں ضعیف حدیث نہیں سنتے(فضائل ومناقب میں باتفاق علماء حدیثِ ضعیف مقبول وکافی ہے)‘‘۔
(فتاوی رضویہ، ج9،ص478)
اورپھرایک طرف تحریمِ خبائث جوکہ مذکورہ آیتِ مبارکہ سے دلالۃً ثابت ہے اوردوسری طرف حدیث کی روسے اوجھڑی کی حلت حدیثِ ضعیف سے ثابت ہے توحدیثِ ضعیف سے ثابت شدہ حلت،تحریمِ خبائث پرغالب نہیں آسکتی۔
اورفقۂ حنفی کاایک مسلمہ اصول بھی ہے کہ اگرکسی مسئلے کے بارے میں ایک طرف جوازاوردوسری طرف عدمِ جوازہوتوعدمِ جوازکوہی ترجیح دی جاتی ہے لہذااس اصول کے پیشِ نظراگراوجھڑی کے جوازکی دلیل اورعدمِ جواز کی دلیل برابردرجے کی بھی ہوتی تب بھی اوجھڑی کھانے کے عدمِ جوازکوہی ترجیح دی جائے جیساکہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ایک مقام پرارشادفرماتے ہیں:
’’کہ اصول کا قاعدہ متفق علیھاہے اعتبارعموم لفظ کاہے نہ خصوص سبب کا اورحاظرمبیح پرمقدم ہوتاہے‘‘۔
(فتاوی رضویہ ،ج14ص457)
اورحدیثِ مذکورکے راوی کے ضعف کے بارے میں علامہ ابن حجرعسقلانی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کتاب’’تقریب التہذیب ‘‘میں فرماتے ہیں:
’’ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع الانصاری،ابواسحاق المدنی،ضعیف،من السابعۃ ایضاً۔‘‘
ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع انصاری،ابواسحاق مدنی ضعیف ہیں،ساتویں سے بھی ایسے ہی۔
(تقریب التہذیب، ج1،ص52 )
حافظ نورالدین علی بن ابی بکربن سلیمان الھیثمی المصری کتاب’’مجمع الزوائدومنبع الفوائد‘‘میں سوال میں مذکورحدیث لکھنے کے بعدتحریرفرماتے ہیں:
’’رواہ الطبرانی،وفیہ ابراھیم بن اسماعیل بن مجمع،وھوضعیف‘‘
اس کوطبرانی نے روایت کیا۔اوراس میں ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف ہے۔
(مجمع الزوائد ،ج5،ص30 )
اورتہذیب التہذیب فی رجال الحدیث میں ہے:
’’ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع بن یزید:قال ابن معین :ضعیف لیس بشیئ۔وقال أبوزرعہ :سمعت ابانُعیم یقول:لایسوی حدیثہ فِلسین۔وقال حاتم :کثیرالوھم،لیس بالقوی،یکتب حدیثہ ،ولایحتج بہ،وھوقریب من ابن ابی حبیب۔
وقال البخاری:کثیرالوھم۔وقال النسائی:ضعیف۔وقال ابن عدی :ومع ضعفہ یکتب حدیثہ۔قلت :وقال الحاکم ابواحمد:لیس بالمتین عندھم۔وقال ابوداود :ضعیف،متروک الحدیث،سمعت یحیی یقولہ ۔وفی کتاب ابن ابی خیثمۃ من طریق جعفربن عون ان ابن مجمع کان أصمّ،وکان یجلس الی الزھری فلایکادیسمع الابعدکدّ۔وقال ابن حبان :کان یقلب الاسانید،ویرفع المراسیل‘‘
ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع بن یزید کے بارے میں ابن معین کہتے ہیں کہ یہ ضعیف راوی ہے اوراسکاروایت ِحدیث میں کچھ مقام نہیں،ابوزرعہ کہتے ہیں میں نے ابونعیم کوکہتے ہوئے سناکہ اسکی روایت کردہ بات چندٹکوں کے برابربھی نہیں،ابو حاتم کہتے ہیں کہ یہ بہت وہم کرنے والاشخص تھاقوی نہیں تھااس کی روایت کردہ حدیث لکھی تو جائے لیکن اس سے دلیل نہ پکڑی جائے اوراسکا شمار ابنِ ابی حبیب کے قریب ہی ہوتا ہے،
امام بخاری نے فرمایاکہ یہ بڑاوہمی تھا،امام نسائی نے فرمایاکہ یہ ضعیف ہے ،ابنِ عدی نے کہاکہ یہ ضعیف ہونے کے باوجوداحادیث لکھتاہے،میں کہتاہوں امام حاکم نے فرمایاکہ ابواحمدراوی یہ ان کے نزدیک روایتِ حدیث میں پختہ نہیں ہے،امام ابوداؤدفرماتے تھے کہ میں نے یحیٰ کویہ فرماتے ہوئے سناکہ یہ ضعیف تھااورحدیث کی قبولیت کے اعتبارسے متروک تھااورابنِ ابی خیثمہ کی کتاب میں جعفربن عون کے طریق سے مروی ہے کہ ابنِ مجمع راوی یہ بہراتھایہ جب امام زہری کی مجلس میں بیٹھتاتوبڑی مشکل سے کلام کوسمجھ پاتا،امام ابنِ حبان نے لکھاکہ یہ احادیث کی اسنادکوالٹ پلٹ دیتاتھااورمرسل احادیث کومرفوع کرکے بیان کرتا تھا۔ (تہذیب التہذیب فی رجال الحدیث، ج1،ص100 )
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)