سوال:ایسا خصی جانور،جس کاعضو کاٹ کراُسے خصی کیاگیاہو،اُس جانورکی قربانی جائزہے یانہیں؟
جواب:جی ہاں!ایسا خصی جانورجس کاعضو کاٹ کراُسے خصی کیاگیاہو،اُس کی قربانی جائز ہے،کیونکہ اس کی کمی سے جانور میں کوئی عیب نہیں آتا، بلکہ اُس کا وصف بڑھ جاتا ہے کہ ایسے جانور کا گوشت زیادہ اچھا ہوتا ہے۔
حضرت سیدناجابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ذبح النبی صلی اللہ علہ وسلم یوم الذبح کبشین اقرنین املحین موجوئین‘‘ ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن دوسینگ والے،چِت کبرے،خصی مینڈھوں کو ذبح فرمایا۔
(سنن ابو داؤد،ج2،ص38)
علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ کی نقل کردہ ایک تشریح کے مطابق ،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سےعضو کٹےخصی جانور کی قربانی کرنا ثابت ہوتا ہے۔
چنانچہ آپ علیہ الرحمۃ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:
’’الموجوءیعنی بضم الجیم وبالھمزۃمنزوع الانثیین‘‘
ترجمہ:لفظ’’موجوء‘‘جیم پرپیش کے ساتھ اورہمزہ کے ساتھ ہے،جس سے مراد وہ جانور ہے جس کے خصیتین جُدا کر دیے گئے ہوں۔
(فتح الباری،ج10،ص12)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’ویجوز المجبوب العاجز عن الجماع‘‘
ترجمہ:عضو کٹے،جُفتی سے عاجز جانور کی قربانی جائز ہے۔
(فتاوی عالمگیری،ج5،ص297)
اوریادرہے کہ خصی ہوناکوئی عیب نہیں،بلکہ خوبی ہے،کیونکہ ایسے جانور کا گوشت اچھاہوتاہے۔
محیط برہانی میں ہے:
’’الخصی افضل من الفحل لانہ اطیب لحما‘‘
ترجمہ:خصی جانور کی قربانی فحل (جوجانورخصی نہ ہو،اُس)کی قربانی سے افضل ہے ،کیونکہ اس کاگوشت زیادہ عمدہ ہوتاہے۔
(محیط برھانی،ج8،ص468)
فتاوی رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہواکہ جس جانور کا عضوکاٹ کراُسے خصی کیاگیاہو،اُس جانورکی قربانی جائز ہے یا نہیں؟تو آپ علیہ الرحمۃ نے ارشادفرمایا:’’جائز ہے کہ اس کی کمی سے اس جانورمیں عیب نہیں آتا،بلکہ وصف بڑھ جاتا ہےکہ خصی کاگوشت فحل کی بنسبت زیادہ اچھاہوتاہے۔‘‘
(فتاوی رضویہ،ج20،ص458)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)