کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
اسلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ! قبلہ مفتی صاحب امید کرتا ہوں کہ بخیر و عافیت ہوں گے اور الله عز و جل سے دعا ہے کہ علمائے حق کا سایہ تا قیامت اس امت مسلمہ پر قائم رہے اور وہ مسلمانوں کی راہنمائی کرتے رہیں۔ ایک مسئلہ شرعی میں آپ سے راہنمائی اور فتویٰ شرعی درکار ہے جس کی تفاصیل بندہ نا چیز زیریں سطور میں عرض کرنے جا رہا ہے۔
عرض ہے کہ اس وقت پاکستان میں گستاخ، قادیانی، گوہرشاہی، ملحدین سیکولرز اور دین بیزار لبرلز وغیرہ پوری طاقت کے ساتھ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کے عقائد کو مسخ کر رہے ہیں۔ قرآن عظیم الشان کی غلط تاویلات، دین اسلام کی معنوی تحریفات، آقا کریم ﷺ کی طرف منسوب من گھڑت روایات اور احادیث مبارکہ کو سیاق و سباق سے ہٹا کر من مانی تشریحات بیان کرتے رہتے ہیں اور دین اسلام کی سیاسی منہج اور عام مسلمانوں کے عقائد کو مسخ کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں شکوک و شبہات کے بیج بوتے ہیں۔ بندہ ناچیز مختلف سوشل میڈیا فورمز پر ایسے لوگوں کا حسبِ توفیق رد کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ جہاں یہ لوگوں کو مسخ شدہ تعلیمات دے رہے ہیں وہیں ان کو حقائق پر مبنی مؤقف بھی سننے کو مل جائے۔ اسی سلسلہ میں کچھ دن قبل بندہ ناچیز سے ٹویٹر پر ڈی ایم میں رابطہ کیا گیا کہ یونس گوہر شاہی ٹویٹر پر متحرک ہو رہا تو لازم ہے اس فتنہ کا سر کچلا جائے۔ میں نے اول یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ لعین قادیانی ہے۔ تاہم یونس گوہر شاہی نے ٹویٹر سپیس میں کہا کہ وہ قادیانی نہیں اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ مانتا ہے اور ایمان رکھتا ہے کہ وہ واپس آئیں گے، جس کی بابت مجھے ٹویٹر ڈی ایم میں آگاہ کیا گیا۔ اسی دوران ایک بھائی نے مجھے واٹس ایپ پر کال کر کے احوال سے آگاہ کیا گیا کہ یونس گوہر شاہی ٹویٹر فورم پر سپیسز میں متحرک ہو رہا ہے اور اپنے ماننے والوں کے ساتھ آتا ہے اور بدعقیدگی پھیلاتا ہے، لہٰذہ کسی نے اس کو خصوصی طور پر مدعو کیا ہے تاکہ اس کا رد کیا جا سکے اور اس کی حقیقت لوگوں کے سامنے لائی جا سکے، اس لئے آپ سپیس میں آئیں۔ صورتحال کے پیش نظر ایک (عبدالرحمٰن) جو کینیڈا سے ہیں انہوں نے سپیس کے Host سے Co-Host لیا تاکہ اگر کوئی شخص نیچے سے آ کر کچھ غلط کرنے کی کوشش کرے تو اس کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اس کے بعد میں اس سپیس میں مائک پر گیا۔ میں پہلے سنتا رہا اور یونس گوہر شاہی سیاسی باتیں کر رہا تھا، جس کے بعد اس نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ قرآن اور سنت پر مبنی اس کی تحقیق کے مطابق ریاض گوہر شاہی امام مہدی ہے (نعوذ باللہ)؛ جس پر میں نے اس سے سوال کیا کہ جس قرآن و سنت پر مبنی تحقیق کی آپ بات کر رہے ہو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ تحقیق کن اصولوں پر استوار تھی؟ تحقیق کرتے وقت آپ نے اصول کون سے اپنائے؟ جس پر یونس گوہر شاہی نے وضاحت طلب کی کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں؟ اس پر میں نے اس کو وضاحت دی کہ کیا آپ نے ماثورہ تعلیمات پر اپنی تحقیق استوار کی ہے یا تاویلات پر؟ جس پر دوبارہ یونس گوہر شاہی نے استفسار کیا تو میں نے مزید اس کو کہا کہ قرآن مجید فرقان حمید کی تفسیر کی کثیر اقسام ہیں جن میں سے ایک تفسیر کی قسم ماثورہ ہے، یعنی قرآن کی وہ تفسیر جو قران، حدیث اور اقوال اصحاب رضوان الله علیہم اجمعین سے ثابت ہے۔ کیونکہ آپ جس معاملہ پر تحقیق کی بات کر رہے ہو تو وہ امام مہدی کا معاملہ ہے اور امام مہدی بارے عقیدہ تواتر سے ثابت ہے، اس لئے عقیدہ کے معاملہ میں تاویلات یا عقلی دلائل نہیں بلکہ ماثورہ نقلی دلائل ہوتے ہیں؛ تو کیا آپ اپنی تحقیق (اصول بالا) پر یہاں بتا سکتے ہو؟
جس پر یونس گوہر شاہی نے جواب دیا "دیکھیں میں نے کہا ہے کہ میں مانتا ہوں کہ ریاض گوہر شاہی امام مہدی تھے، لیکن میں کسی کو نہیں کہتا کہ وہ بھی اس بات کو مانے؛ تو جب میں تبلیغ نہیں کرتا تو میں بتانے کا بھی پابند نہیں”
اس پر میں نے اس کو جواب دیا کہ "امام مہدی کسی اکیلے کا تو ہو نہیں سکتا بلکہ جو بھی ہوا پوری امت کا ہو گا؛ تو اگر آپ اتنے وثوق سے کہہ رہے ہو کہ تمہاری تحقیق ہے کہ ریاض گوہر شاہی امام مہدی تھا تو امت حق رکھتی ہے آپ سے سے سوال کرے؛ دوسری بات یہ کہ اگر تمہیں یقین ہے کہ تم حق پر ہو تو حق چھپانے کا تو حکم نہیں بلکہ بتانے کا حکم ہے”؛
اس کے بعد یونس گوہر شاہی نے کہا کہ "چلیں میں یو ٹیوب پر بتاؤں گا، وہاں میں ثبوت بھی دکھاؤں گا، یہاں ویڈیو وغیرہ نہیں پلے کی جا سکتی یا دکھائی جا سکتی”جس پر میں نے کہا کہ "میں یو ٹیوب پر نہیں ہوتا، یہیں بتا دیں، جو بھی ثبوت ہے ٹویٹ کریں اوپر سپیس میں پِن کر دیں سب دیکھ لیں گے”؛جس پر یونس گوہر شاہی نے کہا کہ میں اس پر یو ٹیوب پر پروگرام کروں گا وغیرہ ۔۔۔۔۔۔
اوراسی دوران نیچے سے ایک بندہ مائک پر آیا اور اس نے یونس گوہر شاہی اور ریاض گوہر شاہی کو گالیاں نکال دیں؛
ہمارے Co-Host بھائی نے اس بندے کو مائک سے ریموو کیا اور سرزنش کی کہ جب بات ہو رہی ہے تو ایسا کیوں کیا (کیونکہ قادیانی پہلے ہی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس ہماری بات کا رد نہیں وہ صرف گالیاں نکالتے ہیں)؛
لیکن ان گالیوں کا بہانہ بنا کر یونس گوہر شاہی وہاں سے چلا گیا؛ جس کے بعد میں نے کہا کہ جب بات ہو رہی ہو تو ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ آپ کی حرکت نے اسلام کے مؤقف کو نقصان جب کے دوسروں کو بہانہ سازی کا سامان فراہم کیا ہے۔ اور یہ حرکت قابل مذمت ہے۔
یہ تمام واقعہ ہے، کیونکہ سپیس ریکارڈڈ نہیں تھی، اس لئے ریکارڈنگ فراہم نہیں کر سکتا، بیان کرتے وقت الفاظ میں اختلاف ہو سکتا ہے؛ تاہم واقعہ مکمل سیاق و سباق کے ساتھ اتنا ہے اور یہی ہے۔
اب کسی شخص نے اس سپیس کا سکرین شاٹ لیا اور تصویر کے پیچھے امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ الله تعالیٰ علیہ کی تقریر لگائی جو انہوں نے قادیانی نواز اور قادیانیوں کے حمائتیوں کی مذمت میں کی اور اس کو ٹویٹ کر دیا اور چند افراد کے ساتھ سپیس بنا کے ہمارے دونوں بھائیوں کے خلاف مختلف قسم کا پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا۔ اس سارے پروپیگنڈا میں ہمارے اوپر کئی قسم کے الزامات لگائے گئے کہ:
1۔ قادیانیوں کے حمائیتی ہیں
2۔ قادیانیوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں
3۔ مرزائیوں کے ساتھ بیٹھنے والا (مطلقاً) مرزائیوں سے بڑا خنزیر ہے؛
اور اس طرح کے مزید کثیر غلاظت بکی گئی۔ جس کے جواب میں یہ ساری شرارت کرنے والے شخص کو کچھ تحریکی بھائیوں نے ان کو گالیاں دیں۔ اس کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ تحریک لبیک پاکستان کے زونل آفس اسلام آباد پہنچا اور رکن شوریٰ چوہدری رضوان احمد سیفی صاحب کو شکایت لگائی کہ ابو محمد نے مجھے یہ گالیاں دلوائی ہیں۔ قبلہ سیفی صاحب نے مجھے مسییج کیا تو میں آفس میں حاضر ہو گیا۔ جب پورا معاملہ قبلہ سیفی صاحب سے عرض کیا گیا تو اس شخص نے معذرت خواہانہ انداز میں قبول کیا کہ میں نے تحقیق کے بغیر وہ ویڈیو بنائی اور ٹویٹ کی اس لئے میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں۔ میں نے بھی قبلہ سیفی صاحب کے حکم پر حلفاً عرض کر دیا کہ جس جس نے اس کو گالیاں دی ہیں میں نے ان کو روکا ہے اور کسی کو گالیاں دینے کا نہیں کہا نہ میں اس میں ملوث ہوں۔ اور جو اس کے خلاف سپیس بنی تھی وہ بھی میں نے ختم کروائی ہے جس کا ثبوت حاضر ہے۔ اور قبلہ سیفی صاحب کے سامنے میں نے ان لڑکوں کو مزید فون کر کے تنبیہہ کی کہ یہ حکم ہے سیفی صاحب کا کہ اب مزید کوئی گالم گلوچ نہیں ہونا چاہیے۔
چنانچہ اس شخص نے وہاں معاملہ ختم کیا، اور اس بات پر ٹویٹ بھی کیا، لیکن بعد ازاں اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کر کے اپنے پہلے مؤقف پر واپس آ گیا۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ بندہ اور اس کے ہم نوا لاعلمی یا غلط فہمی کی بنیاد پر یہ سب نہیں کر رہے بلکہ یہ لوگ قصداً عمداً یہ بہتان تراشی کر رہے ہیں۔ انہی کے نمائندہ نے مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے اس کو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ میں شریعت کے سامنے سرنڈر ہوں۔ کسی عالم دین مفتی کرام کے پاس بیٹھ کے بات کر لیں اگر میں مجرم ہوا تو بلا تردد اپنے عمل سے رجوع کروں گا۔
جناب قبلہ مفتی صاحب! مجھے اس تمام معاملہ پر حکم شرعی درکار ہے کہ کیا:
1۔ ہم جو یونس گوہر شاہی کو رد کرنے کے لئے گئے ہیں کیا وہ حرام کیا ہے؟ یا کفر کیا ہے؟ کیا امام اہلِ سنت نے اس عمل کو کفر کہا ہے؟
2۔ سپیس کے ٹائیٹل میں جو یونس گوہر کے نام کے ساتھ "ساب” انگلش میں سپیس بنانے والے نے لکھا ہے بقول معترضین کے اس سے یونس گوہر کو عزت دی گئی ہے؛ کیا "ساب” عزت دینا ہے؟ یا اگر یہ عزت دی ہے تو اس کا حکم کیا ہے؟ اور کیا اس کا ذمہ دار Host ہو گا جس نے سپیس بنائی اور یونس گوہر کو بلایا یا ہم جو فقط اس فتنہ کو رد کی نیت سے گئے
3۔ جن لوگوں نے ہم کو، قادیانیوں کا حمایتی کہا، امام اہل سنت کے حوالہ سے ہمیں مرزائیوں ساتھ بیٹھنے والا کہا، اور مرزائیوں کے بڑا خنزیر کہا، ان پر حکم شرعی کیا ہے؟
4۔ اگر معترضین اپنے قیاسات کو امام اہلِ سنت مجدد دین و ملت الشاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی طرف منسوب کیا، کیا وہ مندرجہ بالا واقعہ کے سیاق و سباق اور امام اہل سنت کے فتویٰ کی رو سے حقیقت پر مبنی ہیں یا انہوں نے امام اہلِ سنت مجدد دین و ملت الشاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن پر بہتان / جھوٹ باندھا ہے۔
5۔ اگر یہ عمل کفریہ تھا جو ہم سے سرزد ہوا تو کیا ہمیں تجدید ایمان و نکاح کی ضروت ہے؟ اور اگر یہ عمل کفریہ نہیں جو اوپر بیان ہوا ہے تو کیا یہ حرام ہے جو توبہ درکار ہے؟ اور اگر یہ عمل نہ کفریہ تھا نہ حرام (موجب گناہ) تو کیا بہتان لگانے اور جھوٹی تکفیر کرنے اور رجوع کا مطالبہ کرنے والوں پر تجدید ایمان و نکاح لازم آتا ہے یا نہیں؟
مفتی کرام شریعت مطہرہ کی تعلیمات کی روشنی میں حکم شرعی عنایت فرمائیں۔جزاکم الله خیراً کثیرا
ابو محمد (اسلام آباد)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
جواب جاننے سے پہلے چند ضروری باتوں کا جاننا ضروری ہے :
(1) اللہ تعالیٰ اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو بدمذہبوں سے دلی دوستی و محبت ومؤدت رکھنے،ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے،البتہ دنیاوی معاملات کہ جس میں دین میں کوئی ضرر نہ ہو سوائے مرتدین کے دیگر کفار سے جائز رکھے ہیں ،دنیاوی معاملات میں فقہاء کرام خصوصاً امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن نے تحریر فرمایا ہے کہ کافر کو تحفہ دینا یا لینا اس صورت میں جائز ہے کہ جب جائز مصلحت کے لئے ہو اس میں اس کی کسی رسم کفر کا اعزاز نہ ہواور نہ ہی مسلمان کے دین پر اعتراض ہو اور یہ لکھا ہے کہ کافر سے تحائف کا لین دین کرنے میں اگر یہ نیت رکھتا ہے کہ یہ کافر اسلام کے قریب آئے گا ،تو ایسا ضرور کرے۔
احادیث مبارکہ اور کلام فقہاء کے جملہ کلام کا نتیجہ یہ ہے کہ کفار سے ایسے تعلقات رکھنا جو محبت ومؤدت پر دلالت کریں اور اس میں کوئی جائز مصلحت بھی نہ ہو،تو ان سے ایسے تعلقات بنانا ان کی خوشی و غمی میں شرکت کرنا الغرض جس سے دوستی کا پہلو نکلتا ہو وہ سخت ناجائز وگناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،مطلقاً ہر تعلق گناہ نہیں مثلاً کافر سے خریدو فروخت کرنا کافر کو دین کے قریب کرنے کے لئے کوئی چیز تحفہ دینا(جبکہ اس سے رسم کفر کا اعزاز نہ ہواورنہ ہی مسلمان کےدین پر اعتراض ہو)،یونہی کافر کو جھٹلانے کے لئے اس سے بات کرنا یا مناظرہ کرنا کہ یہ بھی ایک تعلق کی ایک صورت ہے کفار سے اس تعلق کو امت میں سے کسی نے بھی ناجائز نہیں کہا بلکہ امت کے علماء و صلحا ء آج تک یہ کام کرتےآئے ہیں،خود امام اہلسنت کا اپنے خلفاء کو بدمذہبوں سے مناظرے کے لئے روانہ کرنااور علماء اہلسنت کا بدمذہبوں سے مناظرےکرنا اس کی واضح مثال ہے۔
(2) اسلام میں مسلمانوں پر خصوصاً اہل علم حضرات پر کفار اور گمراہ کن فتنوں کا رد کرنا لازم ہے اور فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے کہ جس میں کمی کرنے کے سبب بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ،قرآن پاک و احادیث مبارک میں اس حوالے سے کثرت سے احکام موجود ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام علیہم الرضوان اس کے بعد تمام امت کا اس پر آج تک عمل رہا ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق،زندگی کے مختلف شعبہ جات میں فتنوں کی سرکوبی کی کوشش کرتے آئے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
البتہ یہ یادر ہے جہاں یہ ایک اہم کام ہے وہیں یہ راستہ انتہائی خطرناک بھی ہے،اسی وجہ سے علماء فرماتے ہیں بدمذہب سے مناظرہ کرنا ہر ایک کا کام نہیں ،بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ جو شخص مناظرہ کر رہا ہو،وہ متصلب فی الدین ہواور جس موضوع پر مناظرہ ہو،اس پر کامل عبور بھی رکھتا ہو،جبکہ مناظرہ کے علاوہ رد کرنے کے لئے اسے جو علم حاصل ہو اسے آگے عوام تک پہنچانے کے لئے اس میں مہارت ہونا ضروری نہیں ،جیسا کہ کسی بھی عام شخص کا کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ،ان کے بعد جو کسی کو نبی مانے وہ کافر مرتد ہے ،تو یہ بات پہنچانےکے لئے اس کا اپنے علم میں پختہ ہونا ضروری نہیں کہ یہ ایک عام مسلم دین کی بات ہے جو آگے بغیر کسی تبدیلی کے پہنچا رہا ہے،یونہی علماء اہلسنت کی بات کو بغیر کسی تبدیلی کے آگے پہنچانا یا کسی کو دین کی دعوت دینا یا جہاں کوئی بد مذہب کسی کو گمراہ کر رہا ہو ،وہاں جا کر کہنا کہ یہ باطل ہے اور حق یہ ہے،اس میں حرج نہیں ۔
(3)کسی بھی مسلمان سے بدگمانی رکھنا اور اس پر تہمت لگانا سخت ناجائزو گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ،خصوصاًعقائد کے معاملہ میں کسی پر تہمت لگانا اور خصوصا ایسے الفاظ بولنا کہ جس سے سامنے والے کو کافر قرار دئیے جانے کا بھی پہلو تو ایسا کرنا اور بھی سخت حرام ہے ،اگر قائل گالی کے طور پر کہتا ہے تو ایسا کہنا حرام ہوگا اور اگر کافر ہونے کا عقیدہ رکھ کر ایسے الفاظ بولتا ہے اور حقیقت میں سامنے والا کافر نہیں تو ایسا کہنے والا خود کافر ہوجائے گا۔
پوچھی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ ٹویٹر اسپیس میں یونس گوہر شاہی کے رد کے لئے اور وہاں موجود مسلمانوں کو اس کے فتنے سے بچانے کے لئے جانا ، گناہ بھی نہیں چہ جائیکہ اسے کفر قراردیا جائے کہ فتنہ کا رد کرنا اور عام مسلمانوں کو گمراہی سے بچانا تو نہایت ضروری ہے خصوصاً اس شخص پر کہ جو اس فتنے کو اپنے علم یا عمل کے ذریعے روکنےکی طاقت رکھتا ہے،آن لائن باہمی مکالمہ کےپلیٹ فارم پر کہ جس میں بد مذہب موجود ہو،وہاں جاکر اس کا رد کرنا ہر گز گناہ نہیں کہ آن لائن پلیٹ فارم میں اکٹھا ہونا کہ جب ہر ایک اپنے گھر میں موجود ہے اور اپنی جگہ سے بیٹھ کر گفتگو کر رہا ہے،اس طرح بیٹھنے کو نہ تو مطلقاً دوستانہ بیٹھک کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے خلاف یہ تو شرکت کرنے والے کے انداز اور دیگر قرائن سے ثابت ہوگا کہ یہ شخص اس کی حمایت و نصرت کے لئے گیاہےیا کس مقصد کے لئے گیا ہے ،جبکہ قائل کی مراد اور مکالمہ بالکل واضح کرتا ہے کہ جانے والے کا مقصد اس فتنےکارد کرنا اور اسے عوام کے سامنے ذلیل و رسوا کرنا ہے اور یہ ایک اچھا عمل ہے ،تو جب مسلمان اپنی مراد کی خود وضاحت کر رہا ہے اورقرائن بھی اس کے مطابق ہے ،تو اس طرح وہاں جانے کو بدمذہبوں سے دوستانہ تعلقات رکھنے والا کیونکر کہا جاسکتا ہےایک تو قائل اپنا عمل واضح کر رہا ہے اور دوسرا عرفاً اس طرح جانے کو مطلقاًدوستانے یا محبت و مؤدت پر بھی محمول نہیں کیا جاتا،لہذااس صورت حال میں کسی بھی مسلمان کا دوسرے مسلمان کے بارے بدگمانی کرنا،بلکہ بدگمانی سے آگے بڑھتے ہوئے اس پر بدمذہب کے ساتھ دوستانے ،نرم گوشہ رکھنے اور معاذاللہ حمایتی ہونے کی تہمت لگادینا اور ایسے الزامات لگا دینا کہ جن میں کفریہ تہمت کا بھی شائبہ موجود ہے ،سخت ناجائزو گناہ اور بعض صورتوں میں کفر بھی ہوسکتا ہے،مزید یہ کہ سوشل میڈیا پر محض بدگمانیوں کے نتیجے میں کسی کو بدمذہب یا بدمذہبوں کا حمایتی مشہور کرنا ایک مسلمان کی عزت کو اچھالنا ہے اور دل آزاری کرنا بھی ہے، ایسا کرنا اسلام میں سخت ناجائزو گناہ ہے۔
امام اہلسنت اور علماء اہلسنت کے کلمات کہ جو انہوں نے بدمذہوں سے دوستانہ لگانے کے اوپر ارشاد فرمائے ہیں ،انہیں مطلق بات چیت پر چسپا کردینا سخت بے باکی و ناانصافی ہے ۔
ایسے شخص کو ایک تو ان گناہوں سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی ہوگی اور شخص مذکور کی دل آزاری اور تکلیف دینے کے سبب اس سے بھی معافی مانگنی ہوگی کہ حق العبد بندے کے معاف کئے بغیر معاف نہیں ہوتا اور اگر الزامات لگانے والا، شخص مذکور کو کافر سمجھ کر یہ الفاظ بول رہا تھا ،محض گالی دینا مراد نہیں تھا ،تو تجدید ایمان اور اگر نکاح والا ہے تو تجدید نکاح بھی کرنا لازم ہوگا۔
نوٹ:
(1)کسی بھی مسلمان کو بدمذہب قرار دینے کا فتویٰ جاری کرنا یہ عوام کا کام نہیں ،بلکہ معتمد سنی صحیح العقیدہ مفتیان کرام کا کام ہے،اگر کسی معا ملہ میں شبہ ہوتو خود سے فیصلہ کرنے کی بجائے ، علماء کرام کی طرف رجوع کیا جائے تاکہ غلطی سے بچا جائے۔
(2)مذکورہ جواب سوال میں بیان کردہ تفصیلات کے مطابق ہے،تفصیلات درست نہ ہونے کی صورت میں جواب من و عن کارآمد نہیں ہوگا۔
اب ذیل میں ترتیب سے دلائل ذکر کئے جا رہے ہیں :
اللہ تبارک تعالیٰ کفار سے دوستی اور محبت مؤدت رکھنے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے’’لاتجد قوما یؤمنون باﷲ والیوم الاٰخر یوادون من حاد اﷲ ورسولہ ولو کانوا اٰبائہم او ابنائہم اواخوانہم اوعشیرتہم۔‘‘ترجمۂ کنز الایمان: تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں ۔
(پارہ28،سورۃالمجادلة ، آیت نمبر22)
مزید ارشاد ہوتا ہے:’’یایھا الذین اٰمنوا لاتتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیہم بالمودة وقد کفروا بما جاء کم من الحق ‘‘ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو!میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ،تم انہیں خبریں پہنچاتے ہو دوستی سے حالانکہ وہ منکر ہیں اس حق کے جو تمہارے پاس آیا۔ (پارہ28،سورۃ الممتحنہ، آیت نمبر1)
بدمذہبوں سے میل جول اوران کی صحبت میں بیٹھنے کی ممانعت کےمتعلق اللہ پاک ارشاد فرماتاہے 🙁 وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) ترجمۂ کنزُ العِرفان:’’اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔‘‘
(پارہ 7، سورۃ الانعام، آیت68)
اس آیت مبارک کی تفسیر میں مفتی محمد قاسم عطاری تفسیر صراط الجنان لکھتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ بے دینوں کی جس مجلس میں دین کا احترام نہ کیا جاتا ہو مسلمان کو وہاں بیٹھنا جائز نہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کفار اور بے دینوں کے جلسے جن میں وہ دین کے خلاف تقریریں کرتے ہیں ، ان میں جانا، شرکت کرنا جائز نہیں۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ آخری زمانہ میں جھوٹے دجال ہوں گے جو تمہارے پاس وہ احادیث لائیں گے جو نہ تم نے سنیں ، نہ تمہارے باپ داداؤں نے ، ان کو اپنے اور اپنے کو ان سے دور رکھو، وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ، فتنہ میں نہ ڈال دیں۔
( مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، ص ۹ ، الحدیث: ۷(۷))
البتہ علماء جو ان بد مذہبوں کارد کرنے کیلئے جاتے ہیں وہ اِس حکم میں داخل نہیں۔یاد رہے کہ بد مذہبوں کی محفل میں جانا اور ان کی تقریر سننا ناجائز و حرام اور اپنے آپ کو بدمذہبی و گمراہی پر پیش کرنے والا کام ہے۔ ان کی تقاریر آیاتِ قرآنیہ پر مشتمل ہوں خواہ احادیثِ مبارَکہ پر، اچھی باتیں چننے کا زعم رکھ کر بھی انہیں سننا ہر گز جائز نہیں۔ عین ممکن بلکہ اکثر طور پر واقع ہے کہ گمراہ شخص اپنی تقریر میں قرآن و حدیث کی شرح ووضاحت کی آڑ میں ضرور کچھ باتیں اپنی بد مذہبی کی بھی ملا دیا کرتے ہیں ، اور قوی خدشہ بلکہ وقوع کا مشاہدہ ہے کہ وہ باتیں تقریر سننے والے کے ذہن میں راسخ ہو کر دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ و بے دین کی تقریر و گفتگو سننے والا عموماً خود بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف اپنے ایمان کے بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے ،لہٰذا باوجودیہ کہ وہ عقیدے میں انتہائی مُتَصَلِّب و پختہ ہوتے پھر بھی وہ کسی بدمذہب کی بات سننا ہر گز گوارا نہ فرماتے تھے اگرچہ وہ سو بار یقین دہانی کراتا کہ میں صرف قرآن و حدیث بیان کروں گا۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس بارے میں اسلاف کا عمل نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’سیدنا سعید بن جبیر شاگردِ عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو راستہ میں ایک بد مذہب ملا۔ کہا، کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی ایک کلمہ۔ اپنا انگوٹھا چھنگلیا کے سرے پر رکھ کر فرمایا، ’’ وَ لَا نِصْفَ کَلِمَۃٍ ‘‘ آدھا لفظ بھی نہیں۔ لوگوں نے عرض کی اس کا کیا سبب ہے۔ فرمایا، یہ ان میں سے ہے یعنی گمراہوں میں سے ہے۔
امام محمد بن سیرین شاگردِ انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس دو بد مذہب آئے۔ عرض کی، کچھ آیاتِ کلام اللہ آپ کو سنائیں ! فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی کچھ احادیثِ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنائیں ! فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ انہوں نے اصرار کیا۔ فرمایا، تم دونوں اٹھ جاؤ یا میں اٹھا جاتا ہوں۔ آخر وہ خائب و خاسر چلے گئے۔ لوگوں نے عرض کی: اے امام! آپ کا کیا حرج تھا اگر وہ کچھ آیتیں یا حدیثیں سناتے؟ فرمایا، میں نے خوف کیا کہ وہ آیات و احادیث کے ساتھ اپنی کچھ تاویل لگائیں اور وہ میرے دل میں رہ جائے تو ہلاک ہو جاؤں۔
پھر فرمایا ’’ائمہ کو تو یہ خوف اور اب عوام کو یہ جرأت ہے، وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ ۔ دیکھو! امان کی راہ وہی ہے جو تمہیں تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتائی،’’ اِیَّاکُمْ وَ اِیَّا ھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ ‘‘ان (بدمذہبوں ) سے دور رہو اور انھیں اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ دیکھو! نجات کی راہ وہی ہے جو تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے بتائی، ’’فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ‘‘ ( انعام: ۶۸ ) یاد آئے پر پاس نہ بیٹھ ظالموں کے۔ بھولے سے ان میں سے کسی کے پاس بیٹھ گئے ہو تو یاد آنے پر فوراً کھڑے ہو جاؤ۔( فتاویٰ رضویہ، ۱۵ / ۱۰۶ ، ۱۰۷ ملخصاً ) (تفسیر صراط الجنان)
حدیثِ مبارک میں ان سے دوررہنے ،انہیں اپنے سے دور رکھنے ،اٹھنے ،بیٹھنے،نکاح کرنے، انہیں سلام کرنے ،ان کے ساتھ نماز پڑھنے وغیرہ ہرقسم کا معاملہ کرنے سے بھی بچنے کاحکم دیا گیاہے کہ کہیں وہ دیگرمسلمانوں کو بھی گمراہ نہ کردیں چنانچہ حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:’’ لاتوٗاکلو ھم ولا تشاربو ھم ولا تجا لسوھم ولا تناکحوھم واذا مرضو افلا تعودوھم واذاماتوا فلا تشہدو ھم ولا تصلو علیہم ولاتصلوا معھم‘‘یعنی نہ ان کے ساتھ کھانا کھائو،نہ ان کے ساتھ پانی پیو،نہ ان کے پاس بیٹھو،نہ ان سے رشتہ کرو، وہ بیمار پڑیں تو پوچھنے نہ جائو، مر جائیں تو جنازہ پر نہ جائو، نہ ان کی نماز پڑھواورنہ ان کے ساتھ نماز پڑھو۔‘‘
(کنزالعمال ،جلد11ص246،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن کفار سے تحائف کا لین دین کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں ”موالات ومجرد معاملہ میں زمین وآسمان کافرق ہے دنیوی معاملت جس سے دین پرضرر نہ ہو سوا مرتدین ……کے کسی سے ممنوع نہیں۔ ذمی تومعاملت میں مثل مسلم ہے لھم مالنا وعلیھم ماعلینا(ان کے لئے ہے جوکچھ ہمارے لئے ہے، اور ان پروہی کچھ لازم ہے جوکچھ ہم پر لازم ہے۔ت) اور غیرذمی سے بھی خرید، فروخت، اجارہ، استجار، ہبہ، استیہاب بشروطہاجائز، خریدنا مطلقاً ہرمال کاہرمسلمان کے حق میں متقوم ہو اور بیچناہرجائز چیزکاجس میں اعانت حرب یا اہانت اسلام نہ ہو، اسے نوکررکھنا جس میں کوئی کام خلاف شرع نہ ہو اس کی جائز نوکری کرنا جس میں مسلم پر اس کا استعلا نہ ہو ایسے ہی امور میں اجرت پر اس سے کام لینایا اس کاکام کرنا بمصلحت شرعی اسے ہدیہ دینا جس میں کسی رسم کفر کا اعزاز نہ ہو اس کاہدیہ قبول کرنا جس سے دین پراعتراض نہ ہو“ (فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ 331،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
یونہی امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک اور مقام پر کفار سے تحائف کا لین دین کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں ”اس بارہ میں تحقیق یہ ہے کہ یہ امر مصلحت وقت وہ حالت ہدیہ آرندہ وہدیہ گیرندہ پر ہے اگر تالیف قلب کی نیت ہے اور امید رکھتاہے کہ اس سے ہدایاو تحائف لینے دینے کا معاملہ رکھنے میں اسے اسلام کی طرف رغبت ہوگی تو ضرور لے “
(فتاوی رضویہ ،ج21،ص625، رضافاؤنڈیشن ،لاہور)
بد مذہبوں اور فتنوں کا رد کا فرض اعظم ہے جیسا کہ شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ : بدمذہب کا رد فرض اعظم ہے حدیث میں فرمایا : اذا ظهرت الفتن اوقال البدع فلم یظهر العالم علمه فعلیه لعنۃ اللّٰه والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللّٰه صرفا ولاعدلا ۔ (کنزالعمال جلد 1صفحہ 193)ترجمہ : جب فتنے ظاہر ہوں یا فرمایا جب بدعتیں ظاہر ہوں تو جو عالم اپنے علم کو ظاہر نہ کرے اس پر اللّٰہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہ تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرے گا نہ نفل ۔
( فتاویٰ شارح بخاری جلد اوّل کتاب العقائد باب متعلقہ نبوت صفحہ 422)
منتہیٰ مطلب اور یہ نام رکھنے کا حکم
اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رضوی صاحب علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ: اب سمجھنا چاہئیے کہ بد عقیدہ لوگوں کا ضرر فاسق کے ضرر سے بہت زائد ہے فاسق سے جو ضرر پہنچے گا وہ اس سے بہت کم ہے جو بدعقیدہ لوگوں سے پہنچتاہے ہے فاسق سے اکثر دنیا کا ضرر ہوتا ہے اور بد مذہب سے تو دین و ایمان کی بربادی کا ضرر ہے اور بدمذہب اپنی بدمذہبی پھیلانے کے لئے نماز و روزہ کی بظاہر خوب پابندی کرتے تاکہ ان کا وقار لوگوں میں قائم ہو پھر جو گمراہی کی بات کریں گے ان کا پورا اثر ہوگا لہٰذا ایسوں کی بدمذہبی کا اظہار فاسق کے فسق کے اظہار سے زیادہ اہم ہے اس کے بیان کرنے میں دریغ نہ کریں آج کل بعض صوفی اپنا تقدس یوں ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں کسی کی برائی نہیں کرنی چاہیئے یہ شیطانی دھوکا ہے مخلوقِ خدا کو گمراہوں سے بچانا یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے ۔
(بہار شریعت جلد سوم حصہ شانزدہم صفحہ 149/150مطبوعہ فاروقیہ بک ڈپو دہلی)
کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی کرناحرام ہے چنانچہ قرآن مجیدمیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{یا ایھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم }ترجمۂ کنز الایمان:’’ اے ایمان والو !بہت گمان سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔ ‘‘ (پ26سورۃ الحجرات آیت12)
حضورنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں :’’ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ‘‘ یعنی گمان سے بچو سب سے بڑھ کر جھوٹی بات گمان ہے۔‘‘
(صحیح البخاری جلد 1صفحہ384 قدیمی کتب خانہ کراچی)
اورایسی بات کہ جس کے بارے میں مکمل طورپریقین نہ ہوکسی دوسرے کو بتانا بھی ناجائزوممنوع اورگناہ کا کام ہے بلکہ اگروہ بات اس میں نہ ہوئی تویہ بہتان بھی ہے جوکہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے چنانچہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی صاحب رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔‘‘
(بہار شریعت جلد 2حصہ 16 ص101مطبوعہ ضیا ء القرآن لاہور)
کسی مسلمان کو کافر کہنا کیسا ہے اس بارے میں صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانامفتی محمد امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں،’’کسی مسلمان کوکافرکہاتوتعزیر(یعنی سزا)ہے رہایہ کہ وہ قائل(یعنی مسلمان کوکافرکہنے والا)خودکافرہوگایانہیں اس میں دوصورتیں ہیں اگر اُسے مسلمان جانتاہے توکافرنہ ہوا۔اوراگراُسے کافر اعتقاد کرتا ہے توخودکافرہے کہ مسلمان کوکافرجاننادینِ اسلام کوکفرجانناہے اوردینِ اسلام کوکفرجانناکفرہے۔ہاں اگراُس شخص میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جس کی بناپرتکفیرہوسکتے اوراُس نے اسے کافرکہااورکافرجاناتوکافرنہ ہوگا۔یہ اُس صورت میں ہے کہ وہ وجہ جس کی بناپراُس نے کافرکہاظنی ہویعنی تاویل ہوسکے تووہ مسلمان ہی کہاجائیگامگر جس نے اُسے کافرکہاوہ بھی کافرنہ ہوا۔اوراگراُس میں قطعی کفرپایاجاتاہے جوکسی طرح تاویل کی گنجائش نہیں رکھتاتووہ مسلمان ہی نہیں اوربیشک وہ کافرہے اوراس کوکافرکہنامسلمان کوکافرکہنانہیںبلکہ کافرکوکافرکہناہے بلکہ ایسے کومسلمان جاننایااس کے کفرمیں شک کرنابھی کفرہے۔‘‘
(بہارشریعت حصہ 9صفحہ126مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)