جانور کی گردن توڑنا کیسا

سوال:بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جانور ذبح کرنے کے بعد اس کی گردن توڑ دیتے ہیں اوراس کی کھال اتارناشروع کردیتے ہیں حالانکہ ابھی جانورمیں حیات باقی ہوتی ہے توکیایہ عمل شرعاًدرست ہے؟

جواب:ذبح شرعی کے بعدجانورکے ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی گردن توڑنااورکھال اتارنامکروہ ہے کیونکہ اس میں بلافائدہ جانورکوتکلیف پہنچاناہے۔اوربلافائدہ جانورکوتکلیف پہنچانے سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے۔

       صحیح مسلم میں ہے:

       ’’عن شداد ابن اَوس رضی اللہ تعالی عنہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان اللہ تعالی کتب الاحسان علی کل شیء فاذاقتلتم فاحسنواالقتلۃواذاذبحتم فاحسنوالذبح ولیحداحدکم شفرتہ فلیرح ذبیحتہ‘‘

       ترجمہ:حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:بیشک اللہ تعالی نے ہرچیزپراحسان کرنالکھ دیاہے،لہذاقتل کروتواحسن طریقہ سے قتل کرو(یعنی بے سبب اس کوایذانہ پہنچاؤ)اورذبح کروہ تواحسن طریقہ سے ذبح کرواورتم میں سے کسی شخص کوچاہیے کہ وہ اپنی چھری تیزکرے اورذبیحہ کوآرام پہنچائے یعنی بلافائدہ تکلیف نہ پہنچائے۔

(صحیح مسلم،ج 2،ص152)

       امیرالمؤمنین حضرتِ سیدنافاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کودیکھاجوبکری کوذَبح کرنے کے لئے اسے ٹانگ سے پکڑکرگھسیٹ رہاہے،توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشادفرمایا:تیرے لئے خرابی ہو،اسے موت کی طرف اچھے اندازمیں لے کرجا‘‘۔     (مصَنَّف عبدالرّزّاق،ج4،ص376،حدیث7636)

       کتاب الاختیارمیں ہے:

       ’’ویکرہ سلخھاقبل أن تبرد…وکذایکرہ کسرعنقھاقبل أن تبردلمافیہ من تألم الحیوان وبعدذلک لاألم فلایکرہ‘‘

       جانورکے ٹھنڈاہونے سے پہلے اس کی کھال اتارنامکروہ ہے۔اورایسے جانورکے ٹھنڈاہونے سے قبل اس کی گردن توڑدینابھی مکروہ ہے کیونکہ اس میں جانورکوتکلیف دیناہے اورٹھنڈاہونے کے بعدکھال اتارنے یاگردن توڑنے میں کوئی تکلیف نہیں لہذاٹھنڈاہونے کے بعد یہ عمل مکروہ بھی نہیں۔

(کتاب الاختیار،ج 5،ص14)

        ہدایہ میں ہے:

       ’’ان یمدراسہ حتی یظھرمذبحہ وقیل ان یکسرعنقہ قبل ان یسکن من الاضطراب وکل ذلک مکروہ وھذالان فی جمیع ذلک وفی قطع الراس زیادۃ تعذیب الحیوان بلافائدۃ وھومنھی عنہ‘‘

       جانورکے سرکوکھینچناتاکہ اس کی رگیں ظاہرہوں اورکہاگیاہے کہ جانورکے ٹھنڈاہونے سے قبل اس کی گردن توڑنااوریہ سب مکروہ ہے،اوریہ مکروہ اس وجہ سے ہے کہ ان سب صورتوں میں اورسرکوکاٹ لینے میں بلافائدہ جانورکوتکلیف دیناہے اوربلافائدہ تکلیف دینے سے منع کیاگیاہے۔

(ہدایہ اٰخیرین،ص438)

       بہارِشریعت میں ہے:

       ’’ہروہ فعل جس سے جانورکوبلافائدہ تکلیف پہنچے مکروہ ہے مثلاجانورمیں ابھی حیات باقی ہوٹھنڈاہونے سے پہلے اوس کی کھال اوتارنااوس کے اعضاکاٹنایاذبح سے پہلے اوس کے سرکوکھینچناکہ رگیں ظاہرہوجائیں یاگردن کوتوڑنایوہیں جانورکوگردن کی طرف سے ذبح کرنامکروہ ہے‘‘۔

(بہارشریعت،ج 3،ص315)

       نوٹ:

       امیرِ اہلسنت حضرت علامہ مولاناابوبِلال محمدالیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ قربانی کے احکام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

       ’’گائے وغیرہ کوگرانے سے پہلے ہی قبلہ کاتعین کرلیاجائے،لٹانے کے بعدبالخصوص پتھریلی زمین گھسیٹ کرقبلہ رُخ کرنابے زبان جانورکیلئے سخت اذیت کاباعث ہے۔ذَبح کرنے میں اتنانہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مُہرے(ہڈی)تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے پھرجب تک جانورمکمل طورپرٹھنڈانہ ہوجائے نہ اس کے پاؤں کاٹیں نہ کھال اُتاریں ،ذَبح کرلینے کے بعدجب تک رُوح نہ نکل جائے چھری کٹے ہوئے گلے پرمَس(Touch)کریں نہ ہی ہاتھ۔بعض قصّاب جلد’’ٹھنڈی‘‘کرنے کے لئے ذَبح کے بعدتڑپتی گائے کی گردن کی زندہ کھال اُدھیڑ کرچھری گھونپ کردل کی رگیں کاٹتے ہیں،اسی طرح بکرے کوذَبح کرنے کے فوراًبعدبے چارے کی گردن چٹخادیتے ہیں،بے زَبانوں پراس طرح کے مظالم نہ کئے جائیں۔جس سے بن پڑے اس کے لئے ضروری ہے کہ جانورکوبِلاوجہ ایذاپہنچانے والے کوروکے۔اگرباوجودِ قدرت نہیں روکے گاتوخودبھی گنہگاراورجہنم کاحقدارہوگا۔بہارِ شریعت میں ہے’’جانورپرظلم کرناذمی کافرپر(اب دنیامیں سب کافرحربی ہیں)ظلم کرنے سے زیادہ بُراہے اورذمی پرظلم کرنامسلم پرظلم کرنے سے بھی بُراہے کیونکہ جانورکاکوئی مُعِین ومددگاراللہ عزوجل کے سوانہیں اس غریب کواس ظلم سے کون بچاہے!‘‘۔

(اَبلَق گھوڑے سوار،ص15)

       لہذابوقتِ ذَبح جانورپررحم کھاناچاہیے کہ یہ کارِ ثواب ہے۔

       مُسندِ امام احمدبن حنبل میں ہے:

       ’’ان رجلاقال:یارسول اللہ انی لأذبح الشاۃ واناأرحمھاأوقال:أنی أارحم الشاۃ أن أذبحھافقال:والشاۃ اِن رحمتھارحمک اللہ‘‘

       ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم !مجھے بکری ذَبح کرنے پررَحم آتاہے توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگراس پررحم کروگے تواللہ عزوجل بھی تم پررحم فرمائے گا۔

(مُسندامام احمدبن حنبل،ج5،ص304،حدیث15592)

(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے