مسافر کب سے کب تک نماز میں قصر کرے گا ؟

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ اگرہم اپنے گھرسے سفرشرعی کے لیے نکلیں(سفر شہر کی آبادی کے باہر سے جہاں جانا ہے اس شہر کی آبادی سے پہلے تک 92کلو میٹریا زیادہ  ہو) تونمازکس وقت سے قصرکریں گے  گھرسے نکلتے ہی یا92 کلومیٹرہوجانے کے بعد؟اورواپسی میں کب تک قصرکریں؟

جواب:  سفرِ شرعی میں اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے  باہر نکلنے کے بعد فرضوں میں قصر کرنے کی اجازت ہے، فقط گھر سے نکلنے کا اعتبار نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ گھر سے نکلنے کے فوراً بعد ہی قصر نماز پڑھنا شروع کر دی جائے، حالانکہ آپ ابھی اپنے  علاقے یا شہر میں ہی موجود ہوں، بلکہ جب آپ اپنے شہر کی آبادی سے باہر نکل جائیں گے تو قصر پڑھنا شروع کریں گے۔ یونہی جب واپسی ہو تو شہر یا گاؤں کی آبادی میں داخلے کے بعد قصر کی رخصت ختم ہو جائے گی اور مکمل نماز پڑھنا لازم ہو گی۔

   شہر کی آبادی سے نکلنے کے بعد قصر پڑھی جائے گی، چنانچہ  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے جب مدینہ شریف سے سفرِحج شروع کیا، تو ظہر کی نماز مدینہ شریف کی حدود میں چار رکعت ہی ادا کی اور پھر مدینہ شریف کی حدود سے نکلنے کے بعد”  ذوالحلیفہ “ کے مقام پر عصر کی نماز قصر ادا کی، چنانچہ صحیح بخاری میں  ہے:”أن النبي صلى اللہ عليه وسلم: ‌صلى ‌الظهر بالمدينة أربعا، وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين “ ترجمہ:نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ منورہ میں ظہر چار رکعت اور ذو الحلیفہ کے مقام پر عصر کو بطورِ قصر دو رکعت ادا فرمایا۔(صحیح البخاری، جلد2،  کتاب الحج، صفحہ 138، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

   اِس حدیث مبارک کے تحت شارِح بخاری، علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:”الحاصل أن من نوى السفر فلا يقصر حتى يفارق بيوت مصره “ترجمہ:حاصل یہ ہے کہ جو بھی سفرِ شرعی کی نیت رکھے، وہ جب تک اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے باہر نہ ہو جائے، فرض نماز میں قصر نہیں کرے گا۔ (عمدۃ القاری، جلد7، صفحہ132، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)

   یہی شارِح اپنی دوسری کتاب ”البنایۃ شرح الھدایۃ“ میں لکھتےہیں:”المقيم ‌إذا ‌نوى ‌السفر ‌ومشى أو ركب لا يصير مسافرا ما لم يخرج عن عمران المصر “ترجمہ:مقیم جب سفر کی نیت کرے یا چلنا شروع کر دے یا سواری پر بیٹھ جائے، تو وہ صرف اِن سب چیزوں سے مسافِر شرعی نہیں بنے گا، جب تک شہر کی آبادی سے باہر نہ نکل جائے۔ (البنایۃ شرح الهداية، جلد3، صفحہ 17، مطبوعہ دار الفكر، بیروت)

   حضرت مولا علی کرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم ایک دفعہ بصرہ سے باہر نکلے تو ظہر کی چار رکعت نماز ادا کی اور بالکل بصرہ شہر کے کنارے پر آ کر فرمایا کہ اگر ہم اِس بانس سے تیار کردہ گھر سے آگے نکل جائیں تو ہم قصر کرتے ہوئے دو رکعت نماز ادا کریں گے۔ مکمل روایت یوں ہے:”أن عليا، خرج من البصرة، فصلى الظهر أربعا، فقال: أما إنا إذا ‌جاوزنا ‌هذا ‌الخص صلينا ركعتين “ترجمہ:حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  بصرہ سے نکلے اور ظہر کی نماز چار رکعت ادا کی پھر فرمایا :اگر ہم اس خص(بانس سے بنائے ہوئے  گھر)سے آگے نکل جائیں تو ہم قصر کرتے ہوئے چار رکعت کو دو رکعت پڑھیں گے ۔ (المصنف لابنِ ابی شیبۃ، جلد2، صفحہ204، مطبوعہ ریاض)

   اِسی اَثْر کو نقل کر کے امام کمال الدین  ابنِ ھُمَّام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے استدلال کیا ہے کہ شہر یا گاؤں کی عمارت سے نکلنے کے بعد قصر کی رخصت ہو گی۔ (فتح القدیر، جلد2، صفحہ33، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

   واپسی اپنے شہر میں داخل ہوتے ہی قصر کرنے کا حکم ختم ہو جائے گا، چنانچہ علامہ شُرُنبلالی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1069ھ / 1658ء) لکھتے ہیں:”ولا يزال يقصر ‌حتى ‌يدخل ‌مصره یعنی وطنہ الاصلی “ترجمہ:مسافرِ شرعی قصر  نماز ہی پڑھتا رہے گا، یہاں تک کہ واپس اپنے شہر  یعنی وطنِ اصلی میں داخل ہو جائے۔ (نور الایضاح مع مراقی الفلاح ،  فصل فی صلاۃ المسافر، صفحہ222، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے