سوال: اگر کسی کے پاس نصاب سے کم سونا ہو اور ساتھ ہی کچھ رقم بھی ہو، جیسے چار یا پانچ تولہ سونا اور 15000 روپے اور اس پر سال گزر گیا ہو، تو کیا اس پر زکوٰۃ ہوگی؟ اگر زکوٰۃ ہوگی تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کیونکہ یہ سونا تو نصاب کو نہیں پہنچ رہا اور چاندی بھی موجود نہیں ہے۔
جواب: شریعتِ مطہرہ کا یہ اصول ہے کہ جب سونا نصاب سے کم ہو لیکن دیگر اموالِ زکوٰۃ (چاندی،کرنسی ، پرائز بانڈز، یا سامانِ تجارت ) میں سے بعض یا کل کےساتھ مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جاتا ہے، تو دیگر شرائط کی موجودگی میں سال گزرنے پر جس کی ملکیت میں یہ ہو اس پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے ہر ایک کا خیال رکھا ہوا ہے ، اور یوں باہم اموال ملانے کی صورت میں فقراء کیلئے نفع ہے، لہذا شریعتِ مطہرہ نے اس کا حکم دیاہے، اور ہم اس کے پابند ہیں ۔
امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’( اگر نصاب میں کمی ) دونوں جانب ہے تو البتّہ یہ امر غور طلب ہوگا کہ اب ان میں کس کو کس سے تقویم کریں کہ دونوں صلاحیتِ ضم ر کھتے ہیں، اس میں کثرت و قلّت کی وجہ سے ترجیح نہ ہوگی …، بلکہ حکم یہ ہوگا جو تقویم فقیروں کے لیے انفع ہو ا سے اختیار کریں، اگر سونے کو چاندی کرنے میں فقراء کا نفع زیادہ ہے تو وہی طریقہ برتیں، اور چاندی کو سونا ٹھہراتے ہیں تو یہی ٹھہرائیں، اور دونوں صورتیں نفع میں یکساں تو مزکی (زکوٰۃ دینے والے) کو اختیار(ہے)۔‘‘(ملخص از فتاویٰ رضویہ شریف، جلد 10، صفحہ 116، مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاہور)۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم