سوال:کیا قربانی کی کھال امام مسجد کودیناجائزہے؟
جواب: قربانی کی کھال امام مسجدکودینے کے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے:
’’قربانی کی کھال امام مسجدکودیناجائزہے،لیکن اگراس کی اجرت اورتنخواہ میں دیں تواس کی دوصورتیں ہیں،اگروہ اپنااجیر(ملازم)ہے تواس کی تنخواہ میں دینا جائزنہیں،اوراگروہ مسجد کااجیر(ملازم)ہے اورکھال مہتممِ مسجد کومسجد کے لئے دیدی اس نے مسجدکی طرف سے امام کی تنخواہ میں دے دی تواس میں کچھ حرج نہیں‘‘۔
(فتاوی رضویہ ،ج 20، ص477)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)
سوال:قربانی کی کھال اورکن کن کاموں میں استعمال کرسکتے ہیں؟
جواب:مصارفِ خیریعنی قربانی کی کھال کسی بھی بھلائی کے کام میں صرف کرسکتے ہیں مثلاًیتامی وبیوگا ن ومسا کین کودیں یامساجدکے مصارف مستحبہ میں صرف کرنایاسنی مدارسِ دینیہ میں امدادعلم دین کے لئے دینایہ سب صورتیں جائزہیں۔
’’لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم کلو أ وادخرو أوائتجروا‘‘
’’یعنی حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے کہ کھاؤ،ذخیرہ بناؤ،اورثواب کما ؤ‘‘۔
(فتاوی رضویہ ،ج 20، ص473)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)
سوال:کیا قربانی کی کھال کواپنے استعمال میں لانابھی جائزہے؟
جواب :جی ہاں!قربانی کی کھالیں اپنے استعمال میں لانے میں کوئی حرج نہیں۔
درمختار میں ہے:
’’ویتصدق بجلدھااویعمل منہ نحوغربال وجراب وقربۃ وسفرۃ ودلوأویبدلہ لما ینتفع بہ باقیا‘‘
’’اورقربانی کے جانورکی کھال کوصدقہ کرے یااس سے چھلنی،جراب،پانی کی مشک،دسترخوان،ڈول جیسی چیزیں بنائے یااس کوایسی چیزسے بدل دے جسے باقی رکھ کرفائدہ اٹھایاجائے‘‘۔ (درمختار،ج9،ص474,475)
بہارِشریعت میں ہے:
’’قربانی کی کھال کوخود اپنے کام میں بھی لاسکتے ہیں یعنی اس کوباقی رکھتے ہوئے اپنے کسی کام میں لایاجاسکتاہے مثلاًاس کی جانمازبنالے،چلنی،تھیلی، مشکیزہ،دسترخوان،ڈول وغیرہ بنائے یاکتابوں کی جلدوں میں لگائے یہ سب کرسکتاہے چمڑے کاڈول بنایاتواسے اپنے کام میں لائے قربانی کے چمڑے کوایسی چیزوں سے بدل سکتاہے جس کوباقی رکھتے ہوئے اس سے نفع اٹھایاجائے جیسے کتاب اورایسی چیز سے بدل نہیں سکتاجس کوہلاک کرکے نفع حاصل کیاجاتاہو جیسے اسے بیچ کرروٹی گوشت،سرکہ،روپیہ،پیسہ وغیرہ حاصل کرنا‘‘۔
(فتاوی رضویہ ،ج 20، ص451)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)
سوال:قربانی کی کھال کسی سیدصاحب کویااپنے والدین کودیناکیساہے؟
جواب:قربانی کی کھال ساداتِ کرام کودیناجائزہے،اپنے ماں باپ اولادکوبھی دے سکتاہے،شوہرزوجہ کوزوجہ شوہرکودے سکتی ہے،وہ بنیتِ تصدق ہوتوصدقۂ نافلہ ہے ورنہ ہدیہ،سقا(یعنی پانی بھرنے والے)کودینے میں بھی حرج نہیں۔
(فتاوی رضویہ ،ج 20، ص415)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)
سوال :قربانی کی کھال مسجدمیں دیناکیساہے؟
جواب:قربانی کی کھالیں جب اپنے استعمال میں لاناجائزہیں توبلاشبہ مسجدمیں بھی دے سکتے ہیں۔
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن سے جب اسی قسم کا ایک سوال پوچھا گیاتوجواباًآپ علیہ الرحمہ نے ارشادفرمایا:
’’ہاں جِلد براہِ راست صرف کی جاسکتی ہے‘‘۔
’’قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وائتجروا‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااجروثواب کماؤ۔
(فتاوی رضویہ ،ج20،ص502)
فتاوی امجدیہ میں ہے:
’’قربانی کی کھال مسجد میں بھی دے سکتے ہیں۔
حدیث میں فرمایا:
’’کلوا وادخروا وائتجروا‘‘
(یعنی کھاؤ،جمع کرواوراجروثواب کماؤ)
البتہ اگروہ کھال اس لئے بیچی کہ قیمت اپنے تصرف میں لائے تواب اس قیمت کومسجدمیں صرف نہیں کرسکتا،بلکہ اس کاتصدق مساکین پرواجب ہے۔
(فتاوی امجدیہ،ج3،ص315,316 )
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)