سوال:ایک جانورکہ جس کاایک سینگ ٹوٹاتومالک نے دوسرابھی نکال دیا،دیکھاجائے توجانورکے سرپراب کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا،زخم بھی ٹھیک ہوچکاہے توکیاایسے جانورکی قربانی ہوجائے گی؟
جواب: سینگ ٹوٹامگرزخم بھرگیا،ٹھیک ہوگیاتواس جانورکی قربانی جائزہے،سینگ کاٹوٹنا اس وقت عیب شمارہوتاہے،جبکہ جڑسمیت ٹوٹ جائے اور زخم بھی ٹھیک نہ ہوا ہو،لہٰذااگر کسی جانورکا سینگ جڑسمیت ٹوٹ جائے اورزخم بھرجائے،تواب اس کی قربانی ہوسکتی ہے،کیونکہ جس عیب کی وجہ سے قربانی نہیں ہورہی تھی ، وہ عیب اب ختم ہوچکا ہے ، لہٰذا اس کی قربانی ہوجائے گی ۔
فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے ایک مسئلے کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’سینگ ٹوٹنا اس وقت قربانی سے مانع ہوتاہے جبکہ سرکے اندرجڑتک ٹوٹے،اگر اوپرکاحصہ ٹوٹ جائے تو مانع نہیں۔
فی ردالمحتار”یضحی بالجماء وھی التی لاقرن لهاخلقۃ وکذا العظماء التی ذھب بعض قرنها بالکسر اوغیرہ۔ فان بلغ الکسر الی المخ لم یجزقهستانی،و فی البدائع ان بلغ الکسر المشاش لایجزئی والمشاش رؤس العظام مثل الرکبتین والمرفقین‘‘
ردالمحتار میں ہے جماء کی قربانی جائز ہے یہ وہ ہے کہ جس کے سینگ پیدائشی نہ ہو اور یوں عظماء بھی، یہ وہ ہے کہ جس کے سینگ کا کچھ حصہ ٹوٹا ہو اورمخ تک ٹوٹ چکا ہو ،تو ناجائز ہے۔ قہستانی ۔ اور بدائع میں ہے: اگر یہ ٹوٹ مشاش تک ہو تو ناجائز ہے اور مشاش ہڈی کے سرے کو کہتے ہیں جیسے گھٹنے اورکہنیاں۔
اورپھراگرایساہی ٹوٹاتھاکہ مانع ہوتا،مگراب زخم بھرگیا،عیب جاتارہا،توحرج نہیں’’لان المانع قد زال وھذا ظاھر‘‘کیونکہ مانع جاتا رہااور یہ ظاہرہے۔
(فتاوی رضویہ جلد 20،صفحہ 460)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)