زکوۃ کی رقم سے ملازمین کو حج کروانے کا حکم

سوال: زکوۃ کی رقم سےملازمین کو بذریعہ قرعہ اندازی حج کروا دیا جائے، تو کیا زکوۃ ادا ہوجائے گی؟

جواب:   زکوۃ کی ادائیگی کے لئےشرعی فقیر،مستحقِ زکوۃ کو زکوۃ کی رقم کامالک بناناضروری ہے ، اگرتملیکِ فقیر نہ پائی جائے، تو زکوۃ ادانہیں ہوتی، لہذا پوچھی گئی صورت میں قرعہ اندازی میں جس کانام آیااگروہ شرعی فقیرنہ ہو،یاشرعی فقیر تو ہو مگر زکوۃ کی رقم اس کی ملک  نہ کی گئی، تو ان دونوں صورتوں میں زکوۃ ادانہیں ہوگی ، اس لیے ضروری ہے کہ قرعہ اندازی صرف شرعی فقیرمستحقِ زکوۃ کے درمیان کریں اورجس کانام آئے تمام رقم اس شرعی فقیر مستحقِ زکوۃ کی ملک کردیں ، اگرشرعی فقیر کو زکوۃ کی رقم کامالک بنانے کے بجائے گورنمنٹ اسکیم  یا پرائیوٹ اسکیم کے تحت حج پر لے  جانے والے منتظمین کوحج کی رقم  ڈائریکٹ  جمع کروادی ، تو بھی زکوۃ ادانہیں ہوگی ۔

   در مختار میں ہے:” (تملیک) خرج الاباحۃ، فلو اطعم یتیما ناویا الزکاۃ لا یجزیہ الا اذا دفع الیہ المطعوم“یعنی: تملیک کی قید سے اباحت خارج ہو گئی، یوں اگر کوئی یتیم کو زکوۃ کی نیت سے کھانا کھلائے تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی ہاں اگرکھانا اس کی ملک کر دے  تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔(در مختار، جلد03، صفحہ 204، مطبوعہ دار المعرفۃ بيروت)

   البحر الرائق میں ہے:’’قید بالتملیک احترازا عن الاباحۃ و لھذا ذکر الولوالجی و غیرہ انہ لو عال یتیما فجعل یکسوہ و یطعمہ و جعلہ من زکاۃ مالہ فالکسوۃ تجوز لوجود رکنہ وھو التملیک و اما الاطعام ان دفع الیہ بیدہ یجوز ایضا لھذہ العلۃ و ان کان لم یدفع الیہ و یاکل الیتیم لم یجز لانعدام الرکن و ھو التملیک “ یعنی: مصنف نے تملیک کی قید اباحت کو خارج کرنے کے لئے لگائی اور یہی وجہ ہے کہ ولوالجی وغیرہ نے یہ مسئلہ ذکر کیا کہ اگر کوئی یتیم کی سرپرستی کرتا ہے اور اپنی زکوۃ کے مال سے اس کو کپڑے پہناتا اور کھانا کھلاتا ہے تو کپڑے پہنانے سے زکوۃ ادا ہو جائے گی کہ تملیک پائی گئی جو کہ رکن زکوۃ ہے اور اگر یتیم کے ہاتھ بطور ملک کھانا دے دیا تو بھی زکوۃ ادا ہو جائے گی اور اگر اس کو بطور ملک نہ دیا بلکہ یتیم کو کھانے کے لئے دیا تو تو زکوۃ ادا نہ ہوگی کیونکہ رکن زکوۃ یعنی تملیک مفقود ہے۔(البحر الرائق،جلد02، صفحه:353،مطبوعه دارالکتب العلمیۃ بيروت)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:”ھی تملیک المال من فقیر مسلم غیر ھاشمی و لا مولاہ بشرط قطع المنفعۃ عن المملک من کل وجہ للہ تعالی ھذا فی الشرع“ یعنی: زکوۃشریعت میں دافع یعنی زکوۃ دینے والے کامال سے ہر قسم کی منفعت ختم کرکے مال کو صرف اللہ کے لئے ایسے مسلمان فقیر کو مالک بنانا ہے جو نہ ہاشمی ہو نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام ۔(فتاوى عالمگیری،جلد1، صفحہ188، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:”مباح کر دینے سے زکاۃ ادا نہ ہوگی، مثلا فقیر کو بہ نیت زکاۃ کھانا کھلا دیا زکاۃ ادا نہ ہوئی کہ مالک کر دینا نہیں پایا گیا، ہاں اگر کھانا دے دیا کہ چاہے کھائے یالے جائے تو ادا ہوگئی۔ یو ہیں بہ نیت زکاۃ فقیر کو کپڑا دے دیا یا پہنا دیا ادا ہوگئی۔“(بہار شریعت،جلد1، صفحہ 874،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے