نماز کا فدیہ کہاں دینا واجب ہے

سوال: نماز کے فدیہ دینے کا جو طریقہ ہے اس کے متعلق  پوچھنا ہے کہ ایک بندہ پاکستان میں فوت ہوا اس کی نمازوں کا فدیہ یہاں یورپ کے حساب سے دینا ہے یا پاکستان کے حساب سے دینا ہے؟

جواب:جس شخص کی نمازوں کا فدیہ دینا ہے اس شخص کی جگہ کا اعتبار ہے ،وہ شخص جس جگہ رہتا ہے وہاں  جو صدقہ فطر کی مقدار بنتی ہے وہ  مقداراس شخص کی نماز وں کا فدیہ قرار پائے گا،البتہ یہ اختیار ہے کہ چاہے تو اتنی مقدار اسی مقام کی کرنسی سے  فدیہ ادا کیا جائے یا اس مقدار کے برابر دوسری کرنسی میں فدیہ اد اکردیا جائے۔

نماز وں کے فدیہ کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کا رسالہ ’’قضا نمازوں کاطریقہ ‘‘کا مطالعہ مفید رہے گا۔

 

بدائع الصنائع  میں ہے:’’تعلقت الصدقة بذمة المؤدي اعتبر مكان المؤدي‘‘

(بدائع الصنائع،ج2،ص75،دارالکتب العلمیہ)

مفتی جلال الدین امجدی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ سے سوال ہوا”زید بمبئی میں ہے اور اس کے بچے وطن میں ہیں تو ان کے صدقہ فطر کے گیہوں کی قیمت وطن کے بھاؤ سے ادا کرے یا بمبئی کے بھاؤ سے؟ اور زیورات جن کا وہ مالک ہے وہ وطن میں ہیں تو زکوة کی ادئیگی میں کہاں کا اعتبار ہے ؟”تو اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمة لکھتے ہیں ”بچے اور زیورات جب کہ وطن میں ہیں تو صدقہ فطر کے گیہوں میں بمبئی کی قیمت کا اعتبار کرنا ہو گا اور زیورات میں وطن کی قیمت کا لانہ یعتبر فی صدقة الفطر مکان المؤدی و فی الزکوة مکان المال ھکذا قال صاحب الھدایة فی کتاب الاضحیة”            (فتاوی فیض الرسول ، جلد1، صفحہ511، شبیر برادرز، لاہور)

          

(دعوت اسلامی)

حاملہ کو طلاق ہو جاتی ہے؟

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے