اپنی ساس یاسسر کو زکاۃ دینے کا کیا حکم ہے ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اپنی ساس یاسسر کو زکاۃ دینے کا کیا حکم ہے جبکہ وہ مستحقِ زکاۃ بھی ہوں۔

جواب: اپنے آباء  واجداد ، اپنی اولاد اور اپنی بیوی یا شوہر کے علاوہ ،ہر شرعی فقیررشتہ دار کو زکاۃ دینا جائز ہے،بشرطیکہ وہ ہاشمی خاندان سے نہ ہو۔ پوچھی گئی صورت میں جبکہ ساس یا سسر شرعی فقیر ہوں اور ہاشمی خاندان سے بھی نہ ہوں ، تو ان کو اپنے مال کی زکاۃ دینا جائز ہے، کہ ساس یا سسر نہ اپنے آباء و اجداد میں سے ہیں اور نہ اولاد میں شامل ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نےاپنی  بہویا داماد کو زکاۃ دیناجائزقرار دیا ہے۔

   جن کے مابین ولادت یا زوجیت کا رشتہ ہو،وہ آپس میں زکاۃ نہیں دے سکتے۔درمختار میں ہے:”ولا الی من بینھما ولاد ۔۔۔او بینھما زوجیۃ“یعنی جن کے مابین ولادت یا زوجیت کا رشتہ ہو،وہ ایک دوسرے کو زکاۃ نہیں دے سکتے۔(در مختار متن رد المحتار، جلد3،صفحہ 344۔345،مطبوعہ:کوئٹہ)

   اس کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:”وقید بالولادلجوازہ لبقیۃ الاقارب کالاخوۃ والاعمام والاخوال الفقراء“یعنی رشتۂ ولادت کی قید لگائی ،کیونکہ ان کے علاوہ باقی رشتہ داروں کو زکاۃ دینا جائز ہے جیسے:فقراء بہن بھائی، چچا، ماموں۔(ردالمحتار، جلد3،صفحہ 344،مطبوعہ:کوئٹہ)

   اپنی بہو یا داماد کو زکاۃ دینا جائز ہے۔ اس کے متعلق ردالمحتار میں تاتارخانیہ سے منقول ہے:”ویجوز دفعھا لزوجۃ ابیہ وابنہ وزوج بنتہ“یعنی اپنے باپ کی بیوی(سوتیلی ماں)، اپنی بہو اور اپنے داماد کو زکاۃ دینا جائز ہے۔(ردالمحتار، جلد3،صفحہ 344،مطبوعہ:کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”مصرفِ زکوٰۃ ہر مسلمان حاجت مند جسے اپنے مملوک سے مقدارِ نصاب فارغ عن الحوائج الاصلیہ پر دسترس نہیں  بشرطیکہ نہ ہاشمی ہو، نہ اپنا شوہر نہ اپنی عورت اگرچہ طلاقِ مغلظہ دے دی ہو جب تک عدت سے باہر نہ آئے ،نہ وہ جو اپنی اولاد میں ہے جیسے:بیٹابیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی،  نہ وہ جن کی اولاد میں یہ ہے جیسے:ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی “(فتاوی رضویہ، جلد10،صفحہ 246،رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پرفرماتے ہیں:”آدمی جن کی اولاد میں خود ہے یعنی ماں  باپ، دادا دادی، نانا نانی یا جو اپنی اولاد میں ہیں یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی، اور شوہر و زوجہ ۔ان رشتوں کے سوا اپنے عزیز ،قریب، حاجت مند مصرفِ زکاۃ ہیں ،اپنے مال کی زکاۃ انہیں دے“(فتاوی رضویہ، جلد 10،صفحہ 264،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

قسطوں پرلیے ہوئے فلیٹ کی زکاۃ اداکرنے کاطریقہ

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے