بچی کا نام صبیہ رکھنا کیسا ہے ؟

   بچی کا "صبیہ "نام رکھنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صبیہ (یاء کی تشدید کے ساتھ)کا معنی ہے:”بچی،لڑکی”۔پس بچی کا یہ نام رکھنا جائز ہے ۔البتہ !بہتر یہ ہے کہ اپنی بچیوں کے نام امہات المؤمنین،صحابیات رضی اللہ عنھن اور صالحاتِ امت کے ناموں  میں سے کسی کے نام  پر رکھے جائیں تاکہ ان کی برکت  اس بچی کو ملے۔نیزحدیث پاک میں بھی نیکوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشافرمائی گئی ہے ۔

   سنن ابو داؤد کی حدیث پاک ہے”عن أبي الدرداء رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إنکم تُدعون یوم القیامۃ بأسمائکم وأسماء آبائکم فحسنوا أسماء کم“ترجمہ : روایت ہے حضرت ابوالدرداء سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے باپوں کے نام سے بلائے جاؤ گے تو اپنے نام اچھے رکھو۔(سنن ابی داؤد ،جلد 4،صفحہ 287،مکتبۃ العصریہ ،بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے” حدیث سے ثابت کہ محبوبان خداانبیاء واولیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء کے اسمائے طیبہ پرنام رکھنا مستحب ہے جبکہ ان کے مخصوصات سے نہ ہو۔” (فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ685،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   بہار شریعت میں ہے” انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شامل حال ہو۔”(بہار شریعت،جلد3،حصہ15،صفحہ356،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   نوٹ:نام  کا انتخاب کرنے اور نام رکھنے کے حوالے سے مزید احکام جاننے کے لیے  المدینۃ العلمیہ کی کتاب بنام”نام رکھنے کے احکام"کا مطالعہ کریں

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے