امام کا نماز کے بعد اجتماعی دعا کروانا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ ہرنمازکے بعدامام صاحب کااجتماعی دعاکروانا کیسا ہے؟بعض لوگ اسے بدعت کہتے ہیں  ،قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب عطا فرمائیے ۔

جواب: قرآن و حدیث میں دعا مانگنے کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں ،  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   خود بھی کثرت کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے اور اپنی امّت کو بھی بکثرت  دعا کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے   ، بالخصوص نماز  کے بعد دعا کرنا  ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ، صحابہ کرام علیھم الرضوان  اور سلف صالحین سے ثابت ہے ، یونہی  اجتماعی دعا  کا ثبوت بھی احادیثِ مبارکہ اور اقوالِ ائمہ میں موجود ہے  اور   دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے   کہ نبی کریم   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی عادتِ مبارکہ یہی تھی ، لہٰذا نماز کے بعد امام صاحب کا ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کروانا ہر گز بدعت نہیں  ، بلکہ مستحسن اور بہت اچھا کام ہے ، مزید یہ کہ  فرض نمازوں  کے بعد  کا وقت حدیث شریف کے مطابق قبولیت کے اوقات میں سے ہے  ، اس لیے بھی نماز کے بعد دعا کرنی چاہیے ،  البتہ اتنی بلند آواز سے  دعا نہ کی جائے کہ پیچھے نماز پڑھنے والوں کو پریشانی کا سامنا ہو  ۔

   دعا  کی فضیلت و اہمیت پر آیات :

   دعا کا حکم دیتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا  : ﴿وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ﴾ ترجمۂ کنز العرفان:’’اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔‘‘( پارہ 24 ، سورۃ المومن ، آیت 60 )

   بالخصوص فرض نمازوں کے بعد دعا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :﴿فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان :’’تو جب تم فارغ ہو، تو خوب کوشش کرو۔‘‘( پارہ 30 ، سورہ الم نشرح ، آیت 7 )

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ قرطبی ،  طبری  ، بیضاوی ، نسفی ، جلالین ، خازن اور دیگر  کتبِ تفاسیر میں ہے  ، واللفظ للآخر :”قال ابن عباس رضی اللہ عنہ : إذا فرغت من الصّلاة المكتوبة، فانصب إلى ربك في الدعاء، وارغب إليه في المسألة “ترجمہ: حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں (آیت کا مطلب یہ ہے کہ ) اے محبوب جب آپ فرض نماز سے فارغ ہوجائیں ،تو اپنے رب عزوجل سے دعا کرنے میں کوشش کیجئے اور اس سے سوال کرنے میں رغبت کیجئے ۔( تفسیر خازن ،جلد  4 ،صفحہ 443 ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت )

   تفسیرِ صراط الجنان میں ہے  :’’ اس آیت کی ایک تفسیریہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جب آپ نماز سے فارغ ہو جائیں ، تو آخرت کے لیے دعا کرنے میں محنت کریں ، کیونکہ نماز کے بعد دعا مقبول ہوتی ہے۔ ‘‘( تفسیرِ صراط الجنان ، جلد  10 ،صفحہ 748 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   احادیثِ مبارکہ :

   نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نمازوں کے بعد دعا مانگا کرتے تھے ، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے :”عن براء بن عازب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ قال : کنا اذا صلینا خلف رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ، احببنا ان نکون عن یمینہ یقبل علینا بوجھہ قال فسمعتہ یقول رب قنی عذابک یوم تبعث او تجمع عبادک“ ترجمہ : حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ جب ہم نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے نماز پڑھتے، تو ہمیں آپ کی دائیں طرف کھڑا ہونا زیادہ محبوب ہوتا تھا تاکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (سلام کے بعد) چہرہ انور ہماری طرف پھیریں ، کہتے ہیں ، پھر میں نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ کلمات کہتے ہوئے سنا  : اے میرے رب! مجھے اپنے اس دن کے عذاب سے محفوظ فرما جس دن تو اپنے تمام بندوں کو اُٹھائے گا یا جمع کرے گا۔(صحیح المسلم   ، کتاب الصلوٰۃ ، جلد 1 ، صفحہ 247 ، مطبوعہ کراچی  )

   نماز كے بعد دعا نہ مانگنے والے کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے :”عن الأزرق بن قيس قال صلى بنا إمام لنا يكنى أبا رمثة فقال صليت هذه الصلاة أو مثل هذه الصلاة  مع النبى صلى اللہ عليه وسلم. قال وكان أبو بكر وعمر يقومان فى الصف المقدم عن يمينه وكان رجل قد شهد التكبيرة الأولى من الصلاة فصلى نبى اللہ صلى اللہ عليه وسلم ثم سلم عن يمينه وعن يساره حتى رأينا بياض خديه ثم انفتل كانفتال أبى رمثة يعنى نفسه  فقام الرجل الذى أدرك معه التكبيرة الأولى من الصلاة يشفع فوثب إليه عمر فأخذ بمنكبه فهزه ثم قال اجلس فإنه لم يهلك أهل الكتاب إلا أنه لم يكن بين صلواتهم فصل ، فرفع النبى صلى اللہ عليه وسلم بصره فقال :أصاب اللہ بك يا ابن الخطاب“ ترجمہ:حضرت ازرق بن قیس رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِبیان کرتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسے امام نے نماز پڑھائی جن کی کنیت ابو رمثہ تھی ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ نماز یا اسی طرح کی نماز نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ پڑھی  اور حضرت ابو بکر و عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا پہلی صف میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دائیں جانب تھے ، ایک شخص تکبیرِ تحریمہ یعنی شروع سے ہی نماز میں شامل تھا ، تو جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نماز پڑھا کر دائیں بائیں سلام پھیرا ، تو ہم نے محبوبِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رخسار کی سفیدی دیکھی ،پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ایک طرف رخِ انور پھیر کر بیٹھ گئے ، جس طرح ابو رمثہ یعنی میں گھوم کر بیٹھا ہوں ،تو وہ شخص جو شروع سے ہی نماز میں شامل تھا  ،کھڑا ہو کر بقیہ نماز پڑھنے لگا ،تو سیّدنا فاروقِ اعظم  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اس کی طرف لپکے اور اس کو کندھے سے پکڑ کر کھینچا اور فرمایا بیٹھ جا ، اہلِ کتاب اسی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے کہ وہ اپنی نمازوں میں (دعا وغیرہ کے ذریعے ) فاصلہ نہیں کرتے تھے ، تو نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے نگاہِ مبارک اٹھا کر فرمایا : اے خطاب کے بیٹے اللہ پاک تیرے ذریعے لوگوں کو سیدھی راہ دکھائے ۔ (سنن ابی داؤد ، کتاب الصلوٰۃ ، باب  فی الرجل  یتطوع  ، جلد  1 ،صفحہ152 ،مطبوعہ لاھور)

   اجتماعی دعا  کا ثبوت :

   اجتماعی دعا کو اللہ پاک قبول فرماتا ہے ، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے :”عن حبيب بن مسلمة الفهري سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يقول: لا يجتمع ملأ فيدعو بعضهم ويؤمن سائرهم إلا أجابهم اللہ“ترجمہ: حضرت حبیب بن مسلمہ الفہری  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو فرماتے سنا کہ جب کوئی قوم  جمع ہو اور ان میں سے ایک دعا کرے اور بقیہ اس پر آمین  کہیں ، تو اللہ پاک ان کی دعا قبول فرماتا ہے ۔ (المعجم الکبیر ، حبیب بن مسلمہ ، جلد 4 ،صفحہ 21 ،مطبوعہ القاھرہ )

   نماز کے بعد امام کو سب کے لیے اجتماعی دعا کرنی چاہیے ، چنانچہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :” لا يؤم رجل قوما فيخص نفسه بالدعاء دونهم، فإن فعل فقد خانهم“ ترجمہ :جو شخص کسی قوم کا امام ہو، تو اسے لوگوں کو چھوڑ کر اپنے لیے دعا نہیں کرنی چاہیے ، اگر اس نے ایسا کیا ،تو اس نے ان کے ساتھ  خیانت کی۔( سننِ ابی داود ، کتاب الطھارۃ ، جلد  1 ،صفحہ 23 ، مطبوعہ لاھور )

   ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے :  ”عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:إذا دعوت اللہ فادع ببطون كفيك، ولا تدع بظهورهما، فإذا فرغت فامسح بهما وجهك“ ترجمہ : حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا : جب اللہ پاک سے دعا کرو ، اپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں سے   دعا کیا کرو  اور ہاتھو ں کی پشت سے نہ کرو اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ  ،تو ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیر لو ۔    (سنن ابنِ ماجہ  ، باب رفع الیدین  فی الدعاء ، صفحہ 411 ، مطبوعہ لاھور)

   فرض نمازوں کے بعد دعا قبول ہوتی ہے ، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے :”عن أبي أمامة، قال: قيل يا رسول اللہ: أي الدعاء أسمع؟ قال: جوف الليل الآخر، ودبر الصلوات المكتوبات“ترجمہ: حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان  کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا کہ کون سی دعا  جلد قبول ہوتی ہے ؟ارشاد فرمایا : رات کے آخری پہر میں کی گئی دعائیں اور فرض نمازوں کے بعد کی گئی دعائیں ۔(ترمذی ، ابواب الدعا ء ،  جلد 4 ، صفحہ 404 ،مطبوعہ  بیروت )

   فقہی جزئیات :

   نماز کے بعد امام کے لیے لوگوں کی طرف منہ کرکے اجتماعی دعا  کرنے کے مستحب ہونے کے متعلق نورالایضاح میں ہے :” لا بأس بقراءة الأوراد بين الفريضة والسنة ويستحب للامام بعد سلامه … أن يستقبل بعده الناس ويستغفرون اللہ ثلاثا ويقرءون آية الكرسي …  ثم يقولون لا إله إلا اللہ وحده لا شريک له  له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ، ثم يدعون لأنفسهم وللمسلمين رافعي أيديهم ثم يمسحون بها وجوههم في آخره “ ترجمہ:فرض و سنن کے درمیان اَوْرَاد و وَظائف پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور امام کے لیے مستحب ہے کہ سلام کے بعد  لوگوں کی طرف منہ کرلے اور پھر  سب لوگ  تین بار استغفارکریں اور آیت الکرسی پڑھیں پھر لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير کہیں اور پھر سب مل کر ہاتھ اٹھا کر اپنے لیے اور مسلمانوں کے لیے دعا کریں اور پھر اپنے ہاتھوں کو اپنے چہروں پر پھیر لیں ۔

   مذکورہ بالا  عبارت کے تحت  مراقی الفلاح میں ہے :” يستحب الفصل بينهما كما كان عليه السلام إذا سلم يمكث قدر ما يقول: "اللهم أنت السلام ومنك السلام وإليك يعود السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام” ثم يقوم إلى السنة قال الكمال وهذا هو الذي ثبت عنه صلى اللہ عليه وسلم من الأذكار التي تؤخر عنه السنة ويفصل بينها وبين الفرض “ترجمہ : فرض اور سنن کے درمیان فاصلہ کرنا مستحب ہے ،جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس دعا:( اللهم أنت السلام ومنك السلام وإليك يعود السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام) کی مقدار  وقفہ کیا کرتے تھے، پھر سنتوں کے لیے کھڑے ہوتے تھے ، علامہ کمال علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ یہی وہ اذکار ہیں جو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے  ثابت ہیں کہ جن کی بنا پرسنتوں میں تاخیر کی جاسکتی ہے اور فرض و سنتوں کے درمیان فاصلہ کیا جائے گا۔(نورالایضاح مع  مراقی الفلاح ، کتاب الصلوٰۃ ، فصل فی اذکار الواردۃ ، صفحہ 118 ، 119 ، مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ  )

   علامہ یعقوب بن سیّد علی حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات : 931 ھ ) لکھتے ہیں  :”(یغتنم الدعاء بعدالمکتوبۃ ) وقبل السنّۃ علی ما روی عن البقالی  من انّہ قال الافضل  ان یشتغل بالدعاء ثم بالسنّۃ وبعد السنن الاوراد علی ما روی  عن غیرہ  وھو المشھور  المعمول بہ  فی زماننا  کما  لا یخفی  ( فانّہ مستجاب ) بالحدیث  وقد قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی حدیث رواہ ابن عباس  رضی اللہ عنھما  ( ومن لم یفعل  ذلک فھو خداج )  ای من لم یدع  بعد الصلوات رافعا یدیہ الیٰ ربّہ مستقبلا ببطونھا الی وجھہ  ولم یطلب حاجاتہ قائلا یا ربّ یا ربّ ، فما فعلہ  من الصلوات ناقصۃ عندالحق  سبحانہ “ترجمہ: فرض نماز کے بعد  اور سنتوں سے پہلے ، امام دعا میں مشغول ہو ، اس بنا پر جو بقالی سے مروی ہے کہ افضل یہ ہے کہ پہلے دعا کی جائے ،پھر سنتیں پڑھی جائیں اور ان کے علاوہ دیگر کی روایت کے مطابق مسنون اَوْرَادْ پڑھ کر دعا کی جائے ،جیساکہ ہمارے ہاں معمول بھی ہے  ،جو کسی پر مخفی نہیں  اور حدیثِ پاک کے مطابق اس وقت دعا قبول ہوتی ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے    ایک حدیث میں ارشاد فرمایا جس کو حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے روایت کیا  کہ جو اس طرح نہ کرے  اس کی نماز ناقص ہے، یعنی نمازوں  کے بعد  ہا تھ اٹھا کر  ، ہتھیلیاں سامنے پھیلا کر اپنی حاجات کے لیے دعا نہ کرے   اور یا ربّ یا ربّ نہ پکارے ، اس کی نماز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک  ناقص ہے  ۔(مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام ، کتاب الصلوٰۃ ، باب آداب الصلوٰۃ ، صفحہ 150 ، 151 ، مطبوعہ المکتبۃ الحقیقۃ استنبول ، ترکی )

   نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت کہنے والوں کو جواب دیتے ہوئے شیخ العرب و العجم علامہ ہاشم سندھی ٹھٹھوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1174 ھ ) لکھتے ہیں :” اگر یہ اعتراض کیا جائے  کہ ائمہ کرام مساجد میں نماز کے بعد  دعا مانگتے ہیں اور مقتدی آمین آمین کہتے ہیں ، جس طرح ابھی دیارِ عرب و عجم میں متعارف ہے  ، یہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا طریقہ نہیں ہے   اور نہ ہی اس باب میں کوئی حدیث مذکور ہے  ،تو میں کہتا ہوں اس اعتراض کے بہت سے جوابات ہیں   : پہلا جواب یہ ہے کہ جس نے  بدعت کا حکم لگایا   وہ  شخص ان احادیث پر مطلع ہی نہیں جو نماز کے بعد  ماثور دعاؤں  کے بارے میں وارد ہیں  ، اس لیے  اس نے کہا  کہ اس باب میں کوئی حدیث مذکور نہیں ۔دوسرا جواب یہ ہے کہ جو شخص نماز کے بعد دعا کو بدعت کہہ رہا ہے ،  بلاشبہ اس کا قول  ہرگز صحیح نہیں ، کیونکہ  یہ قول بہت سی احادیثِ نبویہ اور روایاتِ فقہیہ سےمردود ہے ،  جن کو ہم  (پیچھے ) بیان کر آئے ہیں اور وہ احادیث و  روایات ِ فقہیہ اس بات پر دالّ ہیں کہ   فرض نماز کے بعد دعا سنّت ہے ۔تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر  معترض کی  یہ مراد ہے کہ  نماز کے بعد اس کیفیت سے دعا مانگنا کہ امام ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے اور مقتدی آمین آمین کہیں  ، یہ بدعت ہے  ،تو یہ بھی صحیح نہیں  ، کیونکہ دعا میں ہاتھوں کا اٹھانا سننِ دعا سے ہے اور اسی طرح دعا کے بعد دونوں ہاتھوں کو  منہ  پر پھیرنا   یہ بھی سننِ دعا سے ہے  اور یہ امور سنّتِ مستحبہ مؤکدہ ہیں  اور جو امر  سننِ ماثورہ سے مرکب ہو  اس کے لیے بدعت کا قول درست نہیں ہے ، کیونکہ دعا میں ہاتھوں  کا اٹھانا سننِ دعا سے ہے ،جو احادیثِ نبویہ اور  روایاتِ فقہیہ   سے ثابت ہے ۔‘‘( التحفۃ المرغوبۃ فی افضلیۃ الدعاء بعد المکتوبۃ   مترجم  ، صفحہ  60 ، 61 ، مطبوعہ جمیعت اشاعتِ اھلسنّت پاکستان ،کراچی  )

   شیخ الاسلام و المسلمین  اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’نماز کے بعد دُعا ثابت ہے اور تسبیحِ حضرت بتول زہرا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَابھی صحیح حدیثوں میں آئی ہے۔صبح اور عصر کے بعد سنّتیں نہیں ان کے بعد ذکر طویل کا موقع ہے ،مگر مسلمانوں میں رسم یہ پڑ گئی ہے اور ضرور محمود ہے کہ بعدِ سلام امام کے ساتھ دُعا مانگتے ہیں اور اگر وُہ دعا میں دیر کرے ،منتظر رہتے ہیں ، ان کے ساتھ دعا مانگنے کے بعد متفرق ہوتے ہیں ،ا س حالت میں تسبیحات کی تقدیم اگر خوب تحقیق ثابت ہو کہ اُن میں کسی ایک فرد پر بھی ثقیل نہ ہوگی ، تو کچھ حرج نہیں  ، ورنہ یہی بہتر ہے کہ خفیف دعا مانگ کر فارغ کردے ،پھر جس کے جی میں آئے تسبیحات میں شامل رہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ ، کتاب الصلوٰۃ ، جلد 6 ،صفحہ233، 234 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   ایک مقام پر امامِ اہلسنّت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ جس فرض کے بعد سنّت ہے، اس فرض کے بعددعا  کرنا درست ہے یا نہیں؟ یا بغیر دعا کے سنّت ادا کرکے یا مختصر دعا  کے بعد سنّت شروع کردی جائے ؟ تو جواباً ارشاد فرمایا :’’جائز و درست تو مطلقاً ہے ، مگر فصلِ طویل مکروہ تنزیہی و خلافِ اولیٰ ہے اور فصلِ قلیل میں اصلاً حرج نہیں ۔ دُرمختار فصل صفۃ الصلوٰۃ میں ہے:” یکرہ تاخیر السنۃ الابقدر اللھم انت السلام۔۔ الخ وقال الحلوانی لاباس بالفصل بالاوراد و اختارہ الکمال قال الحلبی ان ارید بالکراھۃ التنزیھیۃ ارتفع الخلاف قلت وفی حفظی حملہ علی القلیلۃ “(ترجمہ :)سنّتوں کا مؤخر کرنا مکروہ ہے، مگر اللھم انت اسلام الخ کی مقدار،حلوانی نے کہا اَوْرَادْ اور دعاؤں کی وجہ سے فصل(وقفہ) میں کوئی حرج نہیں۔علامہ کمال نے اسے مختار قرار دیا ہے، حلبی نے کہا کہ اگر کراہت سے مراد تنزیہی ہو،  تواختلاف ہی ختم ہوجاتا ہے،  میں کہتا ہوں مجھے یاد آتا ہے کہ حلوانی نے اسے اَوْرَادِ قلیلہ پر محمول کیا ہے۔ (دُرمختار  مع الردالمختار،جلد  2 ، صفحہ 300 ، مطبوعہ کوئٹہ  )

   (اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ مزید دلائل دیتے ہوئے لکھتے ہیں :)اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں ہے:”با ید دانست آنست کہ تقدیم روایت منافی نیست بعدیتے راکہ درباب بعض ادعیہ و اذکار دراحادیث واقع شدہ است ، کہ بخواند بعد از نمازِفجر و مغرب دہ بار لا الٰہ الا ﷲ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علٰی کل شیئ قدیر(ملتقطاً)  “ترجمہ : یہاں اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ پہلی روایت بعد والی روایت کے منافی نہیں ، کیونکہ بعض دعاؤں اور اذکار کے بارے میں احادیث موجود ہیں، ایک روایت میں ہے کہ نمازِ فجر اور مغرب کے بعد دس مرتبہ یہ کلمات پڑھے جائیں : اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ یکتا ہے، ذات و صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں ، سلطنت اسی کی ہے، حمد اسی کی ہے اور وہ ہر شے پرقادر ہے۔ (اشعۃ اللمعات ،الفصل الاول ،من باب الذکر بعد الصلوٰۃ  ، جلد 1 ، صفحہ 418 ،مطبوعہ نوریہ رضویہ ،سکھر)

   یہاں سے ظاہر ہوا کہ آیۃ الکرسی یا فرض مغرب کے بعد 10 بار کلمہ توحید پڑھنا فصلِ قلیل ہے  ۔‘‘(فتاویٰ رضویہ  ، کتاب الصلوٰۃ  ، جلد 6 ،صفحہ 234 ، 237 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

صاحب ترتیب نے قضا نماز سے پہلے بھولے سے وقتی نماز پڑھ لی تو؟

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے