زکوٰۃ کی رقم مدرسے کے اخراجات و تعمیرات میں استعمال کر سکتے ہیں ؟

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ مدرسے کے اخراجات و تعمیرات پر زکوٰۃ کی رقم یا اینٹیں ، سیمنٹ وغیرہ لگا سکتے ہیں اور اس کا کیا طریقہ کار ہے ؟

جواب: کسی فقیرِ شرعی کو مالک بنائے بغیر براہِ راست  مدرسے  کے اخراجات و تعمیرات پر زکوٰۃ کی رقم ، اینٹیں یا سیمنٹ وغیرہ  لگانے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی، کیونکہ  تَمْلِیک فقیر  یعنی شرعی فقیرکو زکوٰۃ کا  مالک بنانا، زکوٰۃ کا رُکن اور  بنیادی شرط  ہے،  جب کہ براہِ راست مدرسے  کے اخراجات و تعمیرات پر زکوٰۃ کی رقم ، اینٹیں یا سیمنٹ وغیرہ لگانے میں فقیرِ شرعی کو مالک بنانا نہیں پایا جاتا ، لہٰذا جب بنیادی شرط ہی نہیں پائی جائے گی ،تو زکوٰۃ بھی ادا نہ ہو گی، البتہ اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ کسی فقیر ِ شرعی کو بہ  نیّتِ زکوٰۃ رقم یا دیگر سامان کامالک بنا  دیا جائے ، پھر وہ اپنی طرف سے مدرسے کے جملہ مصارف میں استعمال کرنے کی اجازت سے دے دے، تو اب اُس رقم اور سامان کو مدرسے کی تعمیرات وجملہ اخراجات پر لگا سکتے ہیں ۔

   ادائیگی زکوٰۃ میں فقیرِ شرعی کو مالک بنانا شرط ہے، چنانچہ ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:”وقد امراللہ تعالیٰ الملاک بایتاءالزکوٰۃ لقولہ تعالیٰ ﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾والایتاء ھو التملیک ولذا سمّی اللہ تعالیٰ الزکوٰۃ صدقۃ بقولہ تعالیٰ﴿ انّما الصدقات للفقراء﴾والتصدق تملیک “ترجمہ:اللہ عزّوجلّ نے مال دار لوگوں کو اپنے اِس فرمان﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾کے ذریعے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم ارشاد فرمایا اور ”الایتاء “  کا معنی ”تملیک یعنی مالک بنانا“ہے ،اِسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نےاپنے اس فرمان﴿انّما الصدقات للفقراء“میں زکوٰۃ کو صدقہ کا نام دیااور  تصدق یعنی صدقہ کرنے میں مالک بنانا ہی پایا جاتا ہے ۔(بدائع الصنائع ،کتاب الزکوٰۃ ،فصل فی رکن الزکوٰۃ ،جلد2،صفحہ454،مطبوعہ کوئٹہ)

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” پھر دینے میں تملیک شرط ہے،جہاں یہ نہیں ،جیسے محتاجوں کو بطورِاباحت اپنے دستر خوان پر بٹھا کر کھلا دینا یا میّت کے کفن دفن میں لگانا یا مسجد، کنواں، خانقاہ، مدرسہ، پُل، سرائے وغیرہ بنوانا ،ان سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔‘‘(فتاویٰ رضویہ ،کتاب الزکوٰۃ،جلد10،صفحہ110،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اِسی طرح ایک مقام پرمدرسہ میں مالِ زکوٰۃ استعمال کرنےکی جائزاورناجائزصورتوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”مدرسہ اسلامیہ اگر صحیح اسلامیہ خاص اہلسنت کا ہو……تو اس میں مالِ زکوٰۃ اس شرط پر دیا جاسکتا ہے کہ مہتمم اس مال کو جُدا رکھے اور خاص تملیکِ فقیر کے مصارف میں صرف کرے، مدرسین یا دیگر ملازمین کی تنخواہ اس سے نہیں دی جاسکتی،نہ مدرسہ کی تعمیر یا مرمت یا فرش وغیرہ میں صرف ہوسکتی ہے، نہ یہ ہوسکتا ہے کہ جن طلبہ کو مدرسہ سے کھانا دیاجاتاہے، اُس روپے سے کھانا پکا کر اُن کو کھلایا جائے کہ یہ صورتِ اباحت ہے اور زکوٰۃ میں تملیک لازم……ہاں اگر روپیہ بہ نیّتِ زکوٰۃکسی مصرفِ زکوٰۃ  کو دے کر مالک کردیں وُہ اپنی طرف سے مدرسہ کو دے دے ،تو تنخواہ ِمدرسین و ملازمین وغیرہ جملہ مصارفِ مدرسہ میں صرف ہوسکتاہے۔“(فتاویٰ رضویہ ،کتاب الزکوٰۃ،جلد10،صفحہ254 ، 255،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

زکوٰۃ کے پیسوں سے پُل اور پانی کا کنواں بنوانا کیسا ؟

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے