مالِ تجارت کی زکوٰۃ میں کون سی قیمت کا اعتبار ہوگا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے  بارے میں کہ میری دکان ہے ، ایک چیز میں پانچ روپے میں خرید کر دس روپے میں بیچتا ہوں۔ اب پیچھے اس کا ریٹ بڑھ کر آٹھ روپے ہوگیا ہے تو یہ ارشاد فرمائیں کہ اب میں کس ریٹ سے زکوٰۃ کا حساب لگاؤں؟

جواب: زکوٰۃ کا حساب لگاتے وقت نہ ہی وقتِ خریداری کی قیمت کا اعتبار  ہوتا ہے اور نہ ہی بیچنے کے وقت کی قیمت کا  اعتبار ہوتا ہے بلکہ جس دن زکوٰۃ کا سال پورا ہورہا ہو ، اس دن کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے اس مال کی جو مالیت ہے اس پر  زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے۔

   پوچھی گئی صورت میں جب اس چیز کی مارکیٹ ویلیو بڑھ گئی ہے تو اب موجودہ  مارکیٹ ویلیو کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔

   صدرُالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں : ” مالِ تجارت میں سال گزرنے پر جوقیمت ہوگی اس کا اعتبار ہے۔ “ (بہارِ شریعت ، 1 / 907)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

جس کےپاس حاجت سے زائدصرف ایک تولہ سونا موجود ہو، اس کو زکوۃ دینا کیسا ؟

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے