ملوکیت (بادشاہت (Monarchy):

ملوکیت (بادشاہت (Monarchy):

یہ بھی ایک غیر اسلامی نظام حکومت ہے، اس کی مختلف شکلیں ہیں:

مطلق العنان بادشاہت:

 اس میں بادشاہ کسی دستور یا قانون کا پابند نہیں ہوتا بلکہ جو وہ کہ دے وہی قانون ہوتا ہے۔ فرعون اور نمرود وغیرہ ایسے ہی حکمران تھے۔

شورائی بادشاہت :

اس میں حکم تو بادشاہ کاہی چلتا ہے مگر اس کا ایک در بار ہوتا ہے جس میں اس کی پسند کے مخصوص لوگ اس کے مشیر ہوتے ہیں۔ وہ مختلف معاملات میں ان سے مشورہ لیتا رہتا ہے۔

مذہی بادشاہت:

اس میں ہی نمائندے بادشاہ کو مقرر کرتے ہیں اور وہ ان کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق حکمرانی کرتا ہے۔ یہ دراصل پاپائیت کا نظام ہے، جو عیسائی مذہب کے پیروکاروں میں راج رہا۔ چونکہ عیسی علیہ السلام کے رفع ِآسمانی کے بعد عیسائیت محرف ہوگئی تھی اور عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ کی من مانی وضاحت ان کامذہب قرار پاتی تھی، اس لیے تحریف شدہ  مذیب کی بنیاد پرقائم ہونے والی یہ مذہبی بادشاہت بھی انسانیت کے دکھوں کامداوا کرنے میں ناکام رہی۔

 دستوری بادشاہت:

اس میں بادشاہ ایک دستور کا پابند ہوتا ہے اور اس کے دائرے میں رہ کر کام کرتا ہے۔ اس وقت برطانیہ میں دستوری بادشاہت کا نظام ہے۔ لیکن وہاں کی بادشاہت برائے نام ہے سارے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہیں۔

ملوکیت: اسلام کی روشنی میں:

اسلام ملوکیت کی مذکورہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت کا قائل نہیں ہے، اس کے مطابق دین و دنیا کے امور کے ماہر اہل حل وعقد مل کر قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق حکمران اور شوری کا انتخاب کرتے ہیں، پھر حکمران اور شوریٰ مل کر اللہ تعالی کے احکام کو معاشرے میں نافذ کرتے ہیں۔ (تفصیل اسلامی نظام سیاست کے باب میں آرہی ہے)

اسلام کی نگاہ میں ملوکیت یعنی موروثی حکمرانی ایک سخت ناپسندیدہ اور منوع کام ہے۔ یہ اقرباء پروری، جانب داری اور ظلم و نانصافی ہے۔ اس وقت عرب ریاستوں میں ہی نظام ملوکیت جاری وساری ہے، جب وہاں کوئی بادشاہ وفات پا جاتا ہے تو ایک خاص ترتیب سے شاہی خاندان کے افرادی اس کی جانشینی کے حق دار ہوتے ہیں، دوسرا کوئی فردحکمران بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا، خواہ وہ علم وفضل ، معاملہ فہمی اور عاقبت اندیشی میں اپنی نظیر نہ رکھتا ہو۔ بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے خاندان کے جس فرد نے حکومت سنبھالنی ہوتی ہے اسے ولی عہد کہا جاتا ہے۔

ملوکیت پر اسلام کی ضرب کاری:

اسلام نے جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں خوش آند تبدیلیاں پیدا کیں وہاں ملوکیت کے نظام کوبھی درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ اس نے بتایا کے عہدہ و منصب کسی کی ذاتی جاگی نہیں کہ اس کے بعد اس کا بنایا کوئی دوسراقریبی وارث اس پرمتمکن ہوجائے بلکہ یہ شوری کا حق ہے کہ وہ جس کو اجتماعی فرائض کی انجام دہی کے لیے موزوں تر خیال کرے اسے متعلقہ منصب پر تعینات کرے۔

نبی برحق ﷺنے قیصر و کسریٰ کا لرزہ خیز اعلان اس وقت کیا جب مشرق میں کسری کی بادشاہی کا پرچم لہرارہا تھا اور مغرب میں قیصر کی عظمت کے ڈ نکے بج  رہے تھے۔ اہل ایران کا خاندانِ کسریٰ کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ وہ کوئی عام انسان نہیں ہوتے بلکہ ان سے ہٹ کر کوئی خاص تم کے انسان ہوتے ہیں، اس لیے حکومت اور عہدہ و منصب صرف اور صرف انہی کا ہے۔

نبی رحمت نے اپنی تیس سالہ پاکیزہ زندگی میں مسلمانوں کے دلوں میں ان نقوش کو راسخ کردیا تھا کہ انسانوں کو بھیڑوں بکریوں کا ریوڑسمجھنے والی ملوکیت کا اسلام سے قطعا کوئی تعلق نہیں ۔ عہدہ و منصب صرف اور صرف قابلیت ، صلاحیت، اہلیت ، ذہانت اورفہم و فراست سے منسلک ہیں۔ جو سب سے زیادہ قابل ہوگا وہی اس کا سب سے زیادہ مستحق ہوگا۔

ملوکیت اورقرآن حکیم:

اسلامی تعلیمات و ہدایات اس طریق حکمرانی کی سخت ہوصلہ شکنی کرتی ہیں اور موروثیت کے بجائے اہلیت کو معیار ٹھہراتی ہیں۔ قرآن وسنت سے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

(1)     اِنَّ اللّٰـهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓى اَهْلِهَا     لا      وَاِذَا حَكَمْتُـمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۚ اِنَّ اللّٰـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ ۗ اِنَّ اللّٰـهَ كَانَ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا                        ۝(النساء:۵۸)

ترجمہ:   بے شک اللہ تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کروجوان کے اہل ہیں ۔ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ بے شک الله تعالی تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بے شک الله خوب سنے والا خوب دیکھنے والا ہے۔

اس آیت کریمہ میں الله تعالی نے واشگاف الفاظ میں حکم فرمادیا کہ ہرطرح کی ذمہ داریاں اور عہدے صرف انھیں لوگوں کے سپرد کیے جائیں جو ان کے سب سے زیادہ اہل ہوں ۔ اگر وہ اہل تو ہوں مگر سب سے زیادہ اہل نہ ہوں تو بھی اس آیت کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ قرآن حکیم میں جب کوئی لفظ مطلق بولا جاتاہے تو اس سے مرادفر دکامل ہوتا ہے۔

(۲)     وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُۥ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ٱبُنِيْ مِنۡ أَهۡلِي وَإِنَّ وَعۡدَكَ ٱلۡحَقُّ وَأَنتَ أَحۡكَمُ ٱلۡحَٰكِمِينَ           ۝  قَالَ يَا نُـوْحُ اِنَّهُ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ۖ اِنَّهُ عَمَلٌ غَيْـرُ صَالِــحٍ ۖ فَلَا تَسْاَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۖ اِنِّـىٓ اَعِظُكَ اَنْ تَكُـوْنَ مِنَ الْجَاهِلِيْنَ        ۝   قَالَ رَبِّ اِنِّـىٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْاَلَكَ مَا لَيْسَ لِىْ بِهٖ عِلْمٌ ۖ وَاِلَّا تَغْفِرْ لِىْ وَتَـرْحَـمْنِىٓ اَكُنْ مِّنَ الْخَاسِرِيْنَ  (هود:47-45)

(اور نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا بے شک میرا بڑابیٹا اہل خانہ میں سے ہے اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔ فرمایا اے نوح بے شک وہ تیرے گھر والوں میں سے ہیں بے شک اس کا عمل اچھانہیں پس مجھ سے اس بات کا سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں میں تجھے نصیحت فرماتا ہوں کہ تو ان لوگوں میں سے نہ ہو جو جانتے نہیں۔ عرض کیا اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر تو میری مغفرت فرمائے اور مجھ پررحم نہ فرمائے تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا)۔

ان آیات کریمہ میں ہر اہل فہم غور کر کے بخوبی یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ جو خاص عمل صالح سے عاری ہووہ جانشینی تو بڑی بات ہے فقط نجات کا بھی حق دار  نہیں ، خواہ وہ کسی اولوالعزم پاک نبی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا کسی شخص کا بادشاہ کے خاندان میں سے ہونا قطعا جانشینی کے لیے اس کی اہلیت کا معیار نہیں بلکہ جو شخص اللہ و رسول کے دیے ہوئے بلند ترین معیار پر پورا اترے گاوہی جانشینی کا حق دار ہوگا۔

(۳)     وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًاقَالُوْۤا اَنَّی یَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَ لَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِِ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ وَ زَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ  وَ اللّٰهُ یُؤْتِیْ مُلْكَهٗ مَنْ یَّشَآءُوَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (247)

(اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا بے شک اللہ نے طالوت کوتمہارا بادشاہ مقرر کیا ہے وہ کہنے لگے اسے ہمارے اوپر کہاں سے بادشاہی حاصل ہوگئی جبکہ ہم اس سے زیادہ پریشانی کے مستحق ہیں، اسے تومال میں بھی وسعت نہیں دی گئی۔ میں نے فرمایا بے شک اللہ نے اسے تم پرمنتخب فرمادیا ہے اور اسے علم وجسم میں زیادہ کشادگی دی ہے اور اللہ جس کو چاہے اپناملک دے اور اللہ بڑی وسعت والالم والا ہے)۔

اس آیت کریمہ میں حضرت طالوت کی تخت نشینی کا ذکر ہے۔ الله تعالی نے طالوت کو خاندان یا دولت کی وجہ سے حکمران منتخب نہیں فرمایاب بلکہ علمی وسعت اور جسم و جان کی قوت کی وجہ سے منتخب فرمایا۔ پس حکمرانی کے لیے قرآنی اصول یہ طے پایا کہ جو زیادہ سے زیادہ علمی وسعت رکھتا ہو اور زیادہ سے زیادہ جسمانی صلاحیتوں کا حامل ہواس کو حکمرانی کا عہدہ دیا جائے ۔ باقی رہا یہ سوال کہ ایک نبی کی موجودگی میں جو کہ سب سے زیادہ باصلاحیت ہوتا ہے کسی دوسرے فرد کو بادشاہی کے لیے منتخب کرنا کیسے درست ہو گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ الله کا نبی اپنے مقام ومرتبے کے لحاظ سے بادشاہ پر بہر صورت فائق تھا، بادشاہ بھی اس کے علم کے زیرفرمان تھا، لیکن باقی سب لوگوں میں بادشاہ کو و جسمانی و علمی برتری حاصل تھی۔

قرآن حکیم کے مذکورہ تین حوالہ جات سے اچھی طرح ثابت ہوگیا کہ اسلام میں حکمرانی کا عہدہ موروثیت کی بناپر ہرگز نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کا معیاری وسعت و ثقاہت اور جسمانی قوت و مہارت کے لحاظ سے دوسروں سے برتر ہوتا ہے۔

 ملوکیت اور احادیث طیبہ:

اب صلاحیت واہلیت کے وجوب اور ملوکیت و موروثیت کی ممانعت پر حدیث و سیرت کے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

٭      عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله الله اذا ضيعت الأمانة فانتظر الساعة. قال كيف اضاعتهایا رسول الله؟. قال اذا أسند الامر الى غير اهله فانتظر الساعة.     (میح بخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الامامة، رقم الحدیث: ۹۱۳)

ترجمہ:   حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله نے ارشادفرمایا: جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ انہوں نے عرض کیا یارسول الله! امانت کا ضیاع کس طور پر ہو گا ؟ آپ نے ارشادفرمایا: جب ذمہ داری نا اہل کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔

یہ حدیث واضح طور پر بتارہی ہے کہ عہدے اور ذمہ داریاں اہل و عیال کے سپرد کرنے کے بجائے معاشرے کے اہل ترین افراد کے پردکی جائیں، ورنہ قیامت کا انتظار کیا جائے۔

یہاں یہ نقطہ  اہم ترین کے بھی پیش نظر رہے کہ دنیا بھر کے اصول موضوع میں سے ہے کہ زیادہ اہل کے مقابلے میں کم اہل خود بخود نا اہل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آج بھی ہرطرف مروج ہے کہ میرٹ لسٹ میں90 نمبروں والا 89 نمبروں والے پر بہرحال فائق ہوتا ہے۔

ملوکیت اور اسوہ حسنہ:

 سرکار دو عالم نے جب دنیا سے ظاہری پردہ فرمایا تو آپ ﷺنے اپنے کسی قریبی رشتہ دارتو دور کی بات، مطلقا کسی بھی شخص کو اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا۔ البتہ ایسے اشارات ضرور فرمادیے جن سے سمجھا جاسکتا تھا کہ آپ اپنے بعد جانشینی کے لیے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ  کو سب سے زیادہ موزوں اور اہل سمجھتے ہیں۔ اس پاکیزه سنت میں امت کے لیے پیغام بیغام یہ تھا کہ جانشین کا تقررشوری سے تعلق رکھتا ہے، نہ کہ از خود اولاد وغیرہ رشتہ داروں کو ولی عہد مقرر کر دینے سے، گویا آپ نے خلیفہ وقت کی طرف سے جانشین کی تقرری نیز خاندان کے کسی فرد کی تقرری دونوں کی قانونی حیثیت کا خاتم فرمادیا۔

ملوکیت اور خلفائے راشدین:

٭      حضرت سید ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے جب وصال فرمایاتو آپ کی اولاد بھی موجود تھی مگر آپ نے اس کو اپنا جانشین بنانے کا سوچا تک بھی نہیں بلکہ حضرت عبدالرحمان بن عوف ، حضرت علی اور حضرت عثمان غنی رضی الله علم کے ساتھ مشاورت کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ  کو جانشینی کے لیے نامزد فرمایا ، اور شدید علالت کے باوجود بستر سے اٹھ کر وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ میں نے عنداللہ جوشخص مخلوق میں سب سے بہترین اور اہل ترین تھا اس کو نامزد کیا ہے۔ آپ کی طرف سے بدنام زدگی نہ تو کوئی قانونی حیثیت رکھتی ہے اور نہ ہی حضورﷺ کی سنت مطہرہ کے خلاف ہے بلکہ جس طرح حضور نے آپ کے جانشینی کے لیے موزوں ہونے کی طرف اشارات فرمائے تھے اسی طرح آپ نے بھی حضرت عمر کے موزوں تر ہونے کی سفارش فرمائی۔ یہاں بھی ذہن میں رہے کہ حضورﷺ کافقط اشارہ فرما دینا حضرت ابوبکر کے صراحت سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ پھر آپ کے وصال کے بعد مذکورہ اکابر صحابہ کے بورڈنے آپ کی نامزدگی کو برقرار رکھتے ہوئے حضرت عمر کی بیعت کر کے ان کی خلافت پر صاد کیا۔ لہذایہ  بھی واضح ہوگیا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا تقرر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے صرف نامزد کر دینے سے نہیں ہو گیا تھا بلکہ بورڈ نے اپنی با اختیار مرضی سے بذریہ بیت ان کی تقرری کو قائل کیا تھا۔

٭      حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ پر جب ابولؤلؤ نے قاتلانہ حملہ کیا تو آپ کی آنتیں کٹ چکی تھیں اور زخم سے خون بہہ رہا تھا، حالت انتہائی الم ناک و کرب ناک تھی، آپ چندگھڑیوں کے مہمان تھے مگر آفرین ہے آپ کی ذات اقدس پر کہ زخموں اور موت کی پروا کیئے بغیر فوری طور پر اپنی ٹیم آفاقی مدبرانہ فراست کو کام میں لائے اور اردگرد موجوداہل فہم سے جانشینی کے بارے میں مشاورت طلب کی ۔ ایک شخص نے کہا کہ آپ اپنے بیٹے عبداللہ ابن عمرکو جانشین کیوں نہیں بنادیتے؟ آپ نے غصے میں آ کر فرمایا: ”خدا تھے غارت کرے! تو مجھے کون سے راستے کی طرف لے جانا چاہتا ہے ۔ انتہائی سوچو بچار کے بعد آپ نے چھ حضرات کا ایک سلیکشن بورڈ مقررفرمایا اور ہدایت کی کہ یہ لوگ باہمی مشاورت سے آپس میں کسی ایک کو خلیفہ مقر رکر لیں سلیکشن  بورڈ کے ارکان درج ذیل چھ افراد تھے۔ حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضی، حضرت زبیر بن عوام، حضرت طلحہ بن عبید اللہ، حضرت عبد الرحمان بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ ھم ۔ علاوہ ازیں ساتواں نمبر اپنے بیٹے حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ  کو مقرر فرمایا لیکن کہ دیا کہ وہ صرف مشورہ دے لیں گے، نہ تو خلافت کے لیے امیدوار بن سکیں گے اور نہ ہی منتخب کیے جاسکیں گے۔ اس بورڈ نے آپ کے وصال کے بعد باہمی مشاورت سے حضرت عثمان غنی رضی الله عن کو خلیفۃ المسلمین مقررکیا۔

دنیا کی تمام تر حکمتیں اور دانائیاں قربان ہوں رسول اللہﷺ اور سیدنا صدیق اکبر رضی الله تعالی عنہ کے تربیت یافتہ اس عظیم مرددان کی عقل و دانش پر  جس نے دنیا سے جاتے جاتے امت مصطفی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جانشین کے تقر کا ایک بہترین، زبردست معقول، معیاری اور اصولی ضابط مہیا کردیا۔

مزید یہ کہ اپنے صاحب زادے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی الله عنهما (جن کے تفقہ سے پورے کا پورامذ ہب مالکی وجود میں آیا اور جن میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں تھی) کو سختی  کے ساتھ اپنا جانشین بنانے سے منع کر دیا تا کہ دین اسلام کا دامن موروثیت وملوکیت کے بدنما داغوں سے پاک رہے اور شورائیت کا نظام اس کے ماتھے کا جھومر بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے حسن کے جلوے بکھیر تار ہے۔

اس طرح آئندہ کے لیے امت کو یہ کامل ضابط میسر آ گیا کہ نئے حکمران کے تقرر کے لیے جمہوریت، آمریت اور ملوکیت وغیرہ نظاموں کو اختیار کرنے کے بجائے ایک سلیکشن بورڈ وجود میں لانا چاہیے جو اصولی قاعدوں اور عادلانہ ضابطوں کی روشنی میں نے حکمران کے تقرر کے انتظامات کرے۔

٭      حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانشینی کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد لوگوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر خلیفہ بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے انکار کر دیا لوگوں نے بہت زیادہ اصرار اور منت سماجت کی تو آپ نے اہل بدر (این اہل حل وعقد) کے تسلیم کرنے کی شرط پراپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔ اہل بدر سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے آپ کے حق میں رائے دے دی۔ جس پرآپ راضی ہو گئے ، بعد ازاں اہل مدینہ نے جوق در جوق آپ کی بیعت کی۔

پس معلوم ہوا کہ حضرت علی کی خلافت بھی بدری صحابہ کے بورڈ کے باہمی مشورہ سے وجود میں آئی تھی ۔ مور وثیت وغیرہ کا یہاں بھی کوئی تصور نہیں تھا۔

٭      امام حسن بن علی رضی اللہ عنھما کے بارے میں لوگوں کو شدید غلط فہمی ہوئی کہ شاید ان کی جانشینی موروثی وملوکی جانشینی تھی، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ابن ملجم بد بخت نے جب تلوار کے وار سے آپ کو شدید زخمی کردیا وفات سے قبل جندب بن عبدالله  رضی اللہ عنہ نے آ کر عرض کیا کہ اگرآپ ہم سے جدا ہو جائیں تو کیا حضرت حسن رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بیت کر لیں۔ اس پر آپ نے جوروح  اسلام کے عین مطابق حیات بخش جواب دیاوہ یہ

(میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہتا تم لوگ جو مناسب سمجھنا وہ کرنا، جوشخص تمہیں پسند ہواس کی بیعت کر لینا، میں مسلمانوں کو اسی حالت میں چھوڑوں گا جس حالت میں رسول ﷺنے چھوڑا تھا)۔

مولاعلی کے اس فرمان نے ملوکیت و موروثیت کی جڑ کاٹ کے رکھ دی ، تو آپ نے امام حسن رضی الله عنہ کو اپناولی عہد مقر کیا اور نہ ہی اپنا جانشین بنانے کی ترغیب دی۔ آپ نے تو رسول الله ﷺاور خلفاء ثلاثہ کی طرح اسلام کی شورائیت کی روح کو برقرار رکھا اور جانشین کے تقرر کو اہل حل وعقد پر چھوڑ دیا۔ یہ تو بعد میں اہل حل و عقد نے باہمی مشاورت اور ذاتی مرضی سے امام حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا اور لوگوں نے ان کی بیعت کی۔ اس طرح مولا علی کا اجلا دامن بھی موروثیت کے مکروہ دھبے سے پاک رہا۔ آپ کی ذات اقدس میں موروثیت کا حوالہ تلاش کرنے والوں کے لیے کوئی سامان راحت موجود نہیں۔

یاد رہے اسلام اس مورثیت کی نفی کرتا ہے جو اہلیتکے منافی ہو ،البتہ وہ صورت کے جب وارث ہی اہل ہو اور مسلمان باہمی مشورے اس کا انتکاب کریں تو اس کی اسلام میں ممانعت نہین۔

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے