سوال:اگرسب حصہ دار ایک ہی گھر کے ہوں اور وہ اپنا اپنا حصہ لینانہ چاہتے ہوں بلکہ مل کر کھانا چاہتے ہیں تو کیا ان کے مابین بھی وزن سے تقسیم کرناضروری ہے؟
جواب:اگرسب ایک ہی گھرمیں رہتے ہیں کہ مل کرہی بانٹیں گے اورکھائیں گے یاشرکاء اپنااپناحصہ لینانہیں چاہتے،ایسی صورت میں وزن کرنے کی حاجت نہیں۔
ردالمحتارمیں ہے:
’’ولو اشترٰی لنفسہ ولزوجہ واولادہ الکبار بدنۃ ولم یقسمو ھا تجزیھم أولاوالظاھر انھا لا تشترط لان المقصود منھا الاراقۃ وقد حصلت‘‘
’’اوراگرکسی نے اپنے لیے اوراپنی زوجہ اوراپنی بالغ اولادکے لیے بدنۃ(یعنی قربانی کابڑا جانور خریدا)اورقربانی کے بعدگوشت کو تقسیم نہ کیاتویایہ درست ہے یانہیں؟توظاہر یہی ہے کہ تقسیم کرنایہاں شرط نہیں۔ کیونکہ قربانی سے مقصود اراقۃ الدم(یعنی خون کابہانا)تھااوروہ حاصل ہوچکا(لہٰذاتقسیم کرناشرط نہیں)‘‘۔
( رد المحتار ، ج9 ،ص460)
سوال:قربانی کے گوشت کو کتنے حصوں میں تقسیم کرنا چاہئے؟
جواب:قربانی کے گوشت میں بہتریہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے ایک حصہ فقراءکے لئے اورایک حصہ دوست احباب کے لئے اورایک حصہ اپنے گھر والوں کے لئے۔
درمختارمیں ہے:
’’قال فی البدائع:والافضل ان یتصدق بالثلث ویتخذ الثلث ضیافۃ لاقربائہ واصدقائہ ویدخر الثلث۔ویستحب ان یاکل منھا‘‘
’’بدائع الصنائع میں فرمایاکہ افضل یہ ہے کہ(قربانی کے گوشت کا) تہائی(1/3)حصہ صدقہ کرے،اورتہائی حصے سے اپنے عزیزواقارب اوردوستوں کی مہمان نوازی کرے،اورتہائی حصہ گھرمیں جمع کرکے رکھے،اورمستحب یہ ہے کہ اس میں سے خودبھی کھائے۔‘‘
(ردالمحتار،کتاب الاضحیۃ،ج9،ص474 )
بہارِشریعت میں ہے:
’’قربانی کاگوشت خودبھی کھاسکتاہے،اوردوسرے شخص غنی یافقیرکودے سکتا ہے؛کھلاسکتاہے،بلکہ اس میں سے کچھ کھالیناقربانی کرنیوالے کے لئے مستحب ہے۔
بہتریہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے:ایک حصہ فقراء کے لئے؛اور ایک حصہ دوست احباب کے لئے؛اورایک حصہ اپنے گھر والوں کے لئے۔ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے۔‘‘ (بہارِ شریعت،ج03،ص89)
سوال:کیاقربانی کا ساراگوشت صدقہ کیاجاسکتاہے یاگھرمیں رکھاجاسکتاہے؟
جواب:جی ہاں!قربانی کے تمام گوشت کوصدقہ کردینابھی جائزہے اوراسی طرح ساراگوشت گھرہی میں رکھ لینابھی جائزہے۔البتہ مستحب یہ ہے تین حصے کئے جائیں۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’ولو تصدق بکل جاز ولو حبس الکل لنفسہ جاز ‘‘
اوراگرتمام گوشت صدقہ کردیاتوجائزہے اوراگرتمام گوشت اپنے لئے رکھ لیاتوبھی جائزہے۔‘‘ (عالمگیری ، ج5،ص300)
ردالمحتارمیں ہے:
’’لو حبس الکل لنفسہ جاز لان القربۃ فی الاراقۃ والتصدق باللحم تطوع‘‘
اوراگرتمام کاتمام گوشت اپنے لئے روک کررکھ دیاتوبھی جائزہے،کیونکہ قربت(قربانی کے جانور کا)خون بہانے میں ہے،اور گوشت کا صدقہ کرنامستحب ہے۔ ‘‘
(ردالمحتار،کتاب الاضحیۃ،ج9،ص474 )
بہارِشریعت میں ہے:
’’اورکل کوصدقہ کردینابھی جائزہے،اورکل گھرہی رکھ لے یہ بھی جائز ہے۔‘‘
(بہارِ شریعت،ج03،حصہ15،ص89)
سوال: میت کی طرف سے کی گئی قربانی کے گوشت کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
جواب:میت کی طرف سے کی گئی قربانی کے گوشت کی تقسیم کابھی وہی حکم ہےجواپنی قربانی کے گوشت کا ہے کہ چاہے خودکھائے،کسی کوکھلائے یاصدقہ کرے اوراسمیں بھی مستحب یہ ہے کہ تین حصے کئے جائیں ایک حصہ اپنے لئے،ایک عزیزاقارب کے لئے اورایک مساکین کے لئے۔
ہاں البتہ اگرمیت نے وصیت کی تھی کہ میری طرف سے قربانی کرناتوایسی قربانی کاتمام گوشت صدقہ کردیاجائے ۔
ردالمحتارمیں ہے:
’’من ضحی عن المیت یصنع کمایصنع فی اضحیۃ نفسہ من التصدق والاکل والاجر للمیت والملک للذابح قال الصدر والمختار انہ ان بامر المیت لایاکل منہا والا یاکل ’’بزازیۃ‘‘
جس نے میت کی طرف سے قربانی کی توصدقہ اورکھانے میں اپنی ذاتی قربانی والامعاملہ کیاجائے اوراجروثواب میت کے لئے ہوگااورملکیت ذبح کرنے والے کی ہوگی،اورصدرالشریعہ نے فرمایاکہ مختاریہ ہے کہ اگر(میت کی طرف سے)میت کی وصیت پرقربانی کی توخودنہ کھائے ورنہ کھاسکتاہے۔
(ردالمحتار،ج9،ص540)
اورفتاوی رضویہ میں ہے:
’’اس کے بھی یہی حکم ہیں جواپنی قربانی کے،کہ کھانے،کھلانے،تصدق، سب کااختیار ہے اورمستحب تین حصے ہیں،ایک اپنا،ایک اقارب،ایک مساکین کا۔ہاں اگرمیت کی طر ف سے بحکم میت کرے تووہ سب تصدق کی جائے‘‘۔
(فتاوی رضویہ،ج20،ص455)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)