رد قادیانیت و ختم نبوت کورس قرآن و ھدیث کی روشنی میں
رد قادیانیت و ختم نبوت کورس

رد قادیانیت کورس کلاس 2

رد قادیانیت و ختم نبوت کورس کلاس 2 میں عقیدہ ختم نبوت کے قرآن وآحادیث کے دلائل کا مطالعہ کریں گے  :

  • قرآن پاک سے عقیدہ ختم نبوت کا ثبوت
  • لفظ خاتم النبیین کا معنی ومفہوم
  • احادیث مبارکہ سے عقیدہ ختم نبوت کا ثبوت

 

 

 

 

 

قرآن پاک سے عقیدہ ختم نبوت کا ثبوت

 

آیت نمبر 1 : سورۃ بقرہ آیت نمبر ۴۰۵

وَالَّذِينَ يُوءُ مِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ أَوْلَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

ارشاد فرمایا:وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں جو نازل کیا گیا ہے اے محبوب ﷺ ) آپ کی طرف اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔

یہی لوگ ہیں اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر اور یہی لوگ فلاح اور کامیابی پانےوالے ہیں۔ اللہ کریم جل شانہ نے اس آیتہ مبارکہ میں وحی کی دو قسمیں بیان کی ہیں؛ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ کہہ اے محبوب ( ﷺ ) جو آپ پر نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا۔ اللہ کریم جل شانہ نے مومن کی فلاح و کامیابی اور اخروی نجات کے لیے دووحیوں پر ایمان کا بیان کیا۔

کہ جوان دووحیوں پر ایمان رکھتا ہے ان دو و حیوں کو تسلیم کرتا ہے وہ مومن ہے ایمان والا ہے وہ کامیاب ہے وہ فلاح پانے والا ہے۔ اگر ان دو وجیوں کے علاوہ کوئی تیسری وحی ہونا ہوتی تو اللہ کریم جل شانہ قرآن میں وہ بھی بیان کر دیتا؟

بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَمَا يُنْزَلُ مِنْ بَعْدِكَ کہ محبوب جو آپ پر نازل کیا گیا آپ سے پہلے نبیوں پر نازل کیا گیا وَمَا يُنْزَلُ مِنْ بَعْدِكَ

اور جو آپ کے بعد نازل کیا جائے گا۔ جو آپ کے بعد وحی کی جائے گی اس پر بھی ایمان رکھنا ضروری ہے۔ جب اس وحی کا تذکرہ نہ کیا گیا اس کی بات نہ کی گئی تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ ایمان کے صحیح ہونے کے لیے دو حیوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ ایک وہ وحی جو جناب آدم (علیہ السلام) سے لیکر جناب عیسی (علیہ السلام) تک انبیاء پر آئی اور ایک وہ وحی  جو آخر الزماں میں احمد مجتبی محمد مصطفیﷺ ہے پر آئی۔ اب کوئی مسلمان ان دو و حیوں پر ایمان رکھے تو وہ مومن ہے۔ اب تیسری اگر وحی ہوتی تو اللہ کریم ضرور بیان کرتا چونکہ تیسری وحی کا ذکر نہیں کیا گیا پتہ چلا محمدمصطفی ﷺ پر وحی نازل ہونے کے بعد وحی کا درواز و بند ہو گیا نبوت کا دروازہ بند ہو گیا اب نہ وحی آسکتی ہے نانیا نبی کوئی بن سکتا ہے نبوت بھی بند ! اور وحی کا دروازہ بھی بند ہے۔

 یه آیه مبارکه سرکار دو عالم پر وحی ختم ہونے کی دلیل ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو تقریباً (۳۰) مقامات پر بیان فرمایا۔ اور اللہ کریم نے دو وحیوں کا ذکر کیا تیسری وحی کا ذکر نہیں کیا۔ اگر حضور ﷺ کے بعد تیسری وحی آنی ہوتی تو جس طرح نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے پہلے انبیاء سابقین کے سامنے سرکار دو عالم ماننے کی آمد کا ذکر کیا گیا کہ اے نبیوں تمہارے بعد ایک نبی آنے والے ہیں جن کا نام احمد ہو گا۔ان کی یہ یہ شانیں ہوں گی ان کا یہ مرتبہ ہوگا یہ مقام ہوگا،تو اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تذکرہ کیا جاتا ،لیکن ایسا نہ۔اگر حضور ے کے بعد وحی آنی ہوتی اللہ کریم تذکرہ ضرور کرتا۔ تذکرہ نہ کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد کوئی وحی نہیں آسکتی۔

 آیت نمبر 2: سورۃ المائدہ آیت نمبر ۳

اللہ کریم جل شانہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًاط

فرمایا کہ آج کے دن ہم نے تمہارے لیے تمہارے دین کو عمل کر دیا۔ اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا۔

یہ دوسری آیتہ مقدسہ جس سے سرکار دو عالم ﷺ کے آخری نبی ہونے کی طرف ہماری رہنمائی ہوتی ہے۔ اس آیتہ مبارکہ کی تفسیر حافظ عمادالدین ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۴۶۵ پر بیان کیا  ہے کہ

هذه اكبر نعم الله عزوجل على هذه الامة حيث اكمل تعالى لهم دينهم فلا يحتاجون الى دین غیره ولا الى نبی غیر نبیهم صلوات الله وسلامه عليه ولهذا جعله الله تعالى خاتم الانبياء وبحثه الى الانس والجن

 یہ اس امت پر اللہ عزوجل کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ان کے دین کو مکمل کر دیا۔ پس وہ اپنے دین کے علاوہ کسی دوسرے دین کے محتاج نہیں اور نہ وہ اپنے نبی کے علاوہ کسی نبی کے محتاج ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ اسی لئے اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو خاتم الانبیاء بنادیا اور آپ ﷺ کو تمام انسانوں اور جنوں کی طرف مبعوث فرمایا۔

مرزا غلام احمد قادیانی روحانی خزائن جلد نمبر 9 کے صفحہ نمبر ۳۴۵ اور ۳۴۶ پر لکھتا ہے؛ یعنی آج میں نے قرآن کے اتارنے اور تکمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے لیے کامل کر دیا۔ اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی۔ اور تمہارے لیے دینِ اسلام پسند کر لیا۔

 اور پھر صفحہ نمبر۳۵۲ پر لکھتا ہے: خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابہ کو مخاطب کیا کہ میں نے تمہارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کی اور آیت کو اس طور سے نہ فرمایا کہ اے نبی آج میں نے قرآن کو کامل کر دیا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ ظاہر ہو کہ صرف قرآن کی تکمیل نہیں ہوئی بلکہ ان کی بھی تکمیل ہو گئی کہ جن کو قرآن پہنچایا گیا۔ اور رسالت کی علت غائی کمال تک پہنچ گئی۔

رسالت کا جو مقصد تھا رسالت کی جو علت تھی وہ کمال تک پہنچ گئی اب حضور ے کے بعد کوئی نیا رسول نہیں آسکتا۔ مرزا کی اس تصریح سے بھی یہ ثابت ہوا کہ یہ آیتہ مبارکہ نبی اکرم اے کے خاتم النبین یعنی آخری نبی ہونے کا واضح بیان ہے۔

 اسی طرح روحانی خزائن کی جلد نمبر۷ اصفحہ نمبر ۷۴ اپر مرزاغلام احمد قادیانی لکھتاہے؛

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ اور آیت وَلكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ میں صریح نبوت کو آنحضرت ﷺ پر ختم کر چکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ ” خاتم الانبیاء” ہیں”۔ مرزا غلام احمد قادیانی واضح طور پر ثبوت کا دعوی کرنے سے پہلے اور ذلی بروزی نبی کی بات چھیڑنے سے پہلے یہ اپنی کتابوں میں خود تصریح کرچکا ہے کہ حضوراکرم ﷺ پر نبوت بند ہے۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آسکتا یہ آیات طیبات حضور ﷺ کی ختم نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔

آیت نمبر 3 سورۃ النساء کی آیت نمبر ۵۹

اللہ رب العزت ارشاد فرمایا ؛

يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُو اللَّهَ وَاَطِيْعُو الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولی الامر کی اطاعت کرو۔

 اگر نبی کے بعد کوئی رسول آنا ہوتا، کوئی نیا رسول آنا ہوتا تو اللہ کریم جل شانہ رسالت کے بعد بھی اولی الامر کی اطاعت کا حکم نہ دیتا۔ رسالت کی اطاعت کے بعد اولی الامر کی اطاعت کا حکم دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ کہ حضور کے کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ اگر نیا نہیں آنا ہوتا تو اللہ کریم جل شانہ یہ فرما دیتا۔ کہ اللہ کی اطاعت کرو اس کے رسول کی اطاعت کرو یعنی محمد رسول اللہ ہے کی اطاعت کرو اور ان کے بعد جو نبی آئے گا جو رسول آئے گا ان کی اطاعت کرو۔

آیت نمبر4(سورة الاحزاب، سورة 33 ، آیت 40)

قرآن پاک میں ہے ﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ ﴾ ترجمہ کنز الایمان: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔ (سورة الاحزاب، سورة 33 ، آیت 40)

قرآن کریم میں لفظ خاتم النبین استعمال ہوا؟ اس آیت کا دو ٹوک واضح معنی یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی پیدانہیں ہو سکتا۔ لیکن مرزا قادیانی اور اس کی ذریت ، اس کے ماننے والے اس آیتہ طیبہ میں جو آیتہ طیبہ حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت اور حضور کے آخری نبی ہونے میں نص قطعی ہے اس میں تاویلات فاسدہ و تخصیصات باطلہ کر کے امت کے اجماعی و اتفاقی معنی کا انکار کرتے ہیں۔ جس معنی پر پوری امت کا سلف و خلف سے اتفاق اور اجماع رہا ہے کہ خاتم العین کے معنی آخری نبی ہے۔

خاتم النبین کے معنی اللہ کے پاک رسول ﷺ نے اپنی پاک اور میٹھی زبان ے "لا نبی بعدی” کہا "انا خاتم النبین لا نبی بعدی” کہا میں خاتم النبین ہوں ( کیا معنی ) میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ۔ حضور کے نے آس آیت کی تفسیر یہی کی صحابہ اکرام علیم الرضوان نے ہی کی تابعین نے یہی کی اتبع تابعین نے یہی کی۔ امت کے محدثین نے مفسرین نے مجتہدین نے آئمہ مجتہدین نے فقہا نے اور جاہل و عالم نے اور نہ جاننے والے، جاننے والے نے عوام و خواص سب نے اس کا یہی معنی کیا ہے کہ حضور پر نور شافع یوم النشور ﷺ   آخری نبی ہیں۔ اب اس آیتہ طیبہ سے حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا واضح طور پر پتہ چلتا ہے.

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ ان 13 صدیوں کی تحقیقات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خَاتَم النبین کا معنی ہے: آخر الانبیاء یعنی (سب سے آخری نبی کہ) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنی محال ہے۔ آیت کے اس معنی میں کسی قسم کی تاویل یا تخصیص کرنا ( یعنی اپنی مرضی کے معنی نکالنا) گفر ہے۔ (1) ”

سیدی اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں: (1): جو کہے: ” خَاتَمُ البنین کا مطلب ہے نئی شریعت والا نبی ، لہذا اسی اسلامی شریعت پر عمل کرنے والا نیا نبی آسکتا ہے۔ والا کافر ہے۔ (2): جو ” خَاتَمُ النبین کا معنی ” نبی بالذات (اصلی نبی) کرے، کافر ہے۔ (3): جو اس کا معنی افضل النبیين ( سب نبیوں سے افضل ) بتائے، کافر ہے۔ (2) واضح رہے!ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک سب نبیوں سے افضل ہیں، مگر ” خاتم النبیین کا یہ معنیٰ کرنا کفر ہے (کہ اس سے قرآنی لفظ کا مفہوم بدلتا ہے)۔ (4): جو کہے اس زمین پر تو نہیں مگر اور جگہ (مثلاً ساتوں زمینوں یا ساتوں آسمانوں میں کہیں کوئی نبی آ سکتا ہے، کہنے والا کافر ہے۔ (5): جو کہے: ” انسانوں میں نیا نبی نہیں آسکتا، البتہ دوسری مخلوق میں اب بھی نبی آسکتا ہے “ قائل(کہنے والا) کا فر ہے۔

یادر ہے ! ” خَاتَمُ النَّبِيِّن “ کے ایسے معنی کرنے والا بھی کافر ہے، جو اسے کافر نہ جانے یا اس کے گھر میں شک کرے وہ بھی کافر، مرتد، اسلام سے خارج ہے۔ (فتاوی رضویہ ،ج14ص338)

اور خودمرزا قادیانی بھی نبوت کا دعوی کرنے سے پہلے اس آیتہ طیبہ کی جو تفسیر لکھتا ہے جو وضاحت لکھتا ہے۔

اس کتاب روحانی خزائن کا مجموعہ ۲۳ جلدوں پر  مشتمل ہے۔

روحانی خزائن کی جلد نمبر3 کے صفحہ نمبر۱۳۴ پر لکھتا ہے۔ یعنی محمد تو تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ۔ مگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا ہے نبیوں کا ۔ یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی  کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا۔

 یہ معنی خود مرزا قادیانی کر رہا ہے۔ خاتم کا مطلب ختم کر نیوالا ہے نبیوں کا۔

 اب مرزا قادیانی کی ذریت اور مرزا کے مانے والے کہتے ہیں ختم کا معنی ہے ” انگوٹھی ” یا ختم کا معنی ہوتا ہے "مہر ” یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضور نے نبیوں کی مہر ہیں ۔ نبیوں کی تصدیق کر نیوالے ہیں۔ جس طرح باقی انبیائے سابقین کی حضور اللہ نے تصدیق کی ہے ان کی نبوت کی گواہی دی ہے۔ اس طرح مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کی بھی تصدیق کی ہے۔ لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ اس آیہ مبارکہ کی یہ تفسیر جو حضور اللہ نے بیان نہیں کی ، صحابہ کرام علیہم الرضوان سے منقول نہیں ، تابعین سے منقول نہیں ۔۔۔۔۔ تبع تابعین سے منقول نہیں بلکہ امت کے جمیع محدثین، مفسرین، فقہاء اور آئمہ مجتہدین میں سے کسی نے

اس آیت کی یہ تفسیر بیان نہیں کی جبکہ اس آیت کی تفسیر میں خود رسول اللہ علیہ نے اپنی وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى والی زبانِ اقدس سے خود ارشاد فرمایا ؛ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي میں خاتم النبین  ہوں میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں”

  مرزا قادیانی نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے روحانی خزائن میں یہ بات لکھ چکا  ہے  ہے کہ خاتم النبین کے معنے ہیں نبیوں کا ختم کر نیوالا ۔ نبیوں کا ختم کر نیوالا یعنی حضور ے کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ۔ حضور ﷺ نے نبوت کا دروازہ بند کر دیا۔ اب سرکار دو عالم دینے کے بعد کوئی نیا نہی پیدا نہیں ہو سکتا۔

حَمَامَةُ الْبُشْرَى

یہ مرزا غلام احمد قادیانی کی کتاب ہے اس کے صفحہ نمبر 76اور77لکھتا ہے۔

” وَكَيْفَ يَجِبُّى نَبِيُّ      بعد رَسُولِنَاﷺ” وَقَدْ انْقَطَعَ الْوَحْيُ بَعْدَ وَفَاتِهِ”” وَخَتَمَ اللَّهُ بِهِ النَّبِيِّينَ”

 کہتا ہے ہمارے رسول کے بعد کوئی دوسرا نبی کیسے آسکتا ہے؟ کیونکہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد وحی منقطع ہو گئی۔ اور اللہ نے حضور ﷺکے ذریعے نبیوں کو ختم کر دیا۔

 حضور نے کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا یہ مرزا قادیانی خود لکھ رہا ہے۔ اور خود مرزا نے ختم کے معنی آخر کے کیے ہیں۔

ر روحانی خزائن کی جلد نمبر ۲۳ صفحہ ۳۳۳ پر لکھتا ہے۔

"خدا کی کتابوں میں مسیح موعود کے کئی نام ہیں منجملہ ان کا ایک نام خاتم الخلفاءہے یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر آنے والا ہے”۔

جب خاتم الخلفاء کا یہ معنی نکلا کہ سب سے آخر میں آنے والا خلیفہ تو خاتم النبیین کا کیا معنی نکلا ؟ ( کہ سب سے آخر میں آنے والا نبی ) مرزا قادیانی نے خود جب خاتم کا معنی آخری کر دیا۔

 اور پھر روحانی خزائن کی جلد نمبر ۲۱ صفحہ ۴۱۲ پرلکھتا ہے۔

 یہ راز بھی کہ اخیر پر نبی اسرائیل کے خاتم الانبیاء کا نام جو عیسی (علیہ السلام) ہے اور اسلام کے خاتم الانبیاء کا نام جو احمد اور محمد ہے ہے بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء کا نام عیسی علیہ السلام ہے۔ اب بنی اسرائیل میں عیسی علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آیا۔ اللہ کے نبیوں میں حضور کے خاتم النبیین ہیں۔ حضور ﷺ کے بعد بھی کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہو سکتا۔

 روحانی خزائن کی جلد نمبر ۱۵ صفحہ نمبر ۴۷۹ پر لکھتا ہے۔ اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا۔ میں ان کے لیے خاتم الا ولا دتھا”۔ یعنی میرے ماں باپ کے ہاں میرے بعد دوسری اولاد پیدا نہیں ہوئی نہ لڑکی پیدا ہوئی نہ لڑکا تو مرزا کیا ہوا خاتم الاولاد۔

خاتم الاولاد کا معنی ہوا جو آخر میں آنے والا ہے جس کے بعد کوئی اولاد نہیں۔ تو یقینا خاتم النبیین کا معنی ہوا۔ ” جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہے”۔

 روحانی خزائن کی جلد نمبرے کے صفحہ نمبر ۲۰۰ پر لکھتا ہے۔

 ،الا تعلم ان الرب الرحيم المتفضل سمى نبینا ﷺ خاتم الانبياء بغير استثناء وفسره نبینافی قوله لا نبی بعدى ببيان واضح للطالبين لو جوزنا ظهور نبی بعد نبينا الله لجوزنا انفتاح باب وحى النبوة بعد تغليقها”. کیا تو نہیں جانتا اللہ رب رحیم نے ہمارے نبی کا نام خاتم الانبیاء رکھا بغیر کسی استثناء کے اور ہمارے نبی نے اپنے اس قول کی تغییر فرمادی کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا سمجھنے والوں کے لیے حضور کے نے واضح بیان کر دیا اگر ہم اپنے نبی کے بعد کسی دوسرے نبی کے آنے کو جائز رکھیں تو ہم نے وحی نبوت کا دروازہ کھول دیا اس کے بند ہونے کے بعد جب حضور ﷺ نے واضح فرما دیا۔لا نبی بعدی۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا تو نبی اکرم کے بعد کوئی دوسرا نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔

آیت نمبر 5( پ ۳ ، آل عمران81)

وَإِذَا خَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا اتَيْتُكُم مِّنْ كِتَبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَ كُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ : ترجمه كنز العرفان اور یاد کر وجب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گا پھر تمہارے پاس وہ عظمت والا رسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہوگا تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ۔ ( پ ۳ ، آل عمران81)

یہاں یہ بیان کر دیا کہ مدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سے پہلے انبیاء کرام کی کتابوں کی تصدیق فرمائیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی اور نبی نہیں ہوگا اگر کوئی اور ہوتا تو اس کے متعلق کہا جاتا کہ وہ سب کی تصدیق کرتا جب کہ ایسا نہیں۔

 

آیت نمبر 6(پ ۹، الاعراف: ۱۵۸)

قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا : ترجمه كنز العرفان: تم فرماؤ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ (پ ۹، الاعراف: ۱۵۸)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری دنیا کے تمام انسانوں کے لئے رسول بن کر تشریف لائے ہیں، خواہ وہ آپ کے زمانہ میں موجود ہوں یا آپ کے بعد قیامت تک آئیں گے، اور جب آپ قیامت تک کے انسانوں کے لئے نبی ہیں تو پھر آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔

ختم نبوت سے متعلق احادیث مبارکہ

حدیث نمبر 1

صحیح مسلم کی حدیث پاک ہے "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ: هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ “ ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا، مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پراش اش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا میں وہی (کونے کی آخری ) اینٹ ہوں اور میں سارے انبیاء کرام میں آخری ہوں۔ (صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، باب ذکر کو نہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبيين، جلد 4، صفحہ 1791، حدیث 2286، دار إحياء التراث العربي،بیروت)

حدیث  نمبر 2

مسلم شریف کی حدیث پاک ہے ” عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتْ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ ، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَةٌ، وَخُتِمَ بِي النَّبِيُّونَ “ ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے۔ (۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔ (۳) مال غنیمت میرے لئے حلال کر دیا گیا ہے۔ (۴) روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے۔ (۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ (۶) اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔

(صحیح مسلم ، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، جلد 1 ، صفحہ 371، حدیث 523، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

 اس مضمون کی ایک حدیث بخاری شریف میں حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ اس کے آخر میں ہے وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَةَ ، ترجمہ : پہلے انبیاء کو خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔

(صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم : جعلت لي الأرض مسجد أو طهورا، جلد 1 ، صفحہ 95، حدیث 438، دار طوقالنجاة مصر)

حدیث نمبر3

بخاری و مسلم کی حدیث پاک ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ” أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ، مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِی بَعْدِی تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ (علیہا السلام) سے تھی۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے لا نبوَّةَ بَعْدِی“ میرے بعد نبوت نہیں۔ (صحيح البخارى، كتاب المغازي، باب غزوة تبوك وهي غزوة العسرة، جلد 6 ، صفحہ 3 ، حدیث ،4416، دار طوق النجاة مصر "صحيح مسلم ، کتاب الفضائل، باب من فضائل علي بن ابي طالب رضي الله عنه، جلد 4 ، صفحہ 1871، حدیث 2404، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

حدیث نمبر4

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيَّ خَلَفَهُ نَبِيٍّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِى، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ “ ترجمہ : بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کا وصال ہوتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔

(صحیح البخارى، كتاب أحاديث الأنبياء ، باب ما ذكر عن بني إسرائيل، جلد 4 ، صفحہ 169، حدیث 3455، دار طوق النجاة، مصر) نوٹ: بنی اسرائیل میں غیر تشریعی انبیاء آتے تھے۔ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی تجدید کرتے تھے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایسے انبیاء کی آمد بھی بند ہے۔

حدیث نمبر5

حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ”سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَابُونَ ثَلَاثُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيُّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ، ترجمہ : میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک نبی ہونے کا گمان کرے گا۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں۔ (سنن أبي داود، كتاب الفتن و الملاحم ، باب ذكر الفتن ودلائلها، جلد 4، صفحہ 97، حدیث 4252، المكتبة العصرية، بيروت) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلاَ رَسُولَ بَعْدِى وَلا نَبِي ، ترجمه : رسالت و نبوت ختم ہو چکی ہے۔ پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔

(سنن الترمذي، أبواب الرؤيا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب ذهبت النبوة وبقيت المبشرات، جلد 4، صفحہ 103، حدیث 2272، رایالغرب الإسلامي، بيروت)

حدیث نمبر6

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا“ ترجمہ : ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔

(صحیح البخاری، کتاب الجمعة، باب فرض الجمعة، جلد 2، صفحہ 2 ، حدیث 876، دار طوق النجاة، مصر )

حدیث نمبر7

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا لَوْ كَانَ نَبِيَّ بَعْدِى لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ ترجمہ : اگر میرے بعد کوئی نبی ہو تا تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے۔ (سنن الترمذي، أبواب المناقب، باب في مناقب أبي حفص عمر بن الخطاب رضي الله عنه، جلد 6، صفحہ ()6، حدیث 3686، دار الغرب الإسلامي، بيروت)

حدیث نمبر8

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يُمْحَى بِ الْكُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِمُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى عَقِبِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَ لا نبئ “ ترجمہ : میں محمد ہوں۔ میں احمد ہوں۔ میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(صحیح مسلم ، کتاب الفضائل، باب في أسمائه صلى الله عليه وسلم ، جلد 4، صفحہ 1828، حدیث 2354، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

حدیث نمبر9

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہزادے جناب ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کا وصال ہوا اس وقت سید نا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے: مات صغيرا ولوقضى أن يكون بعد محمد نبي عاش ابنه ولكن لانبی بعده: یعنی وہ بچپن میں ہی وفات پاگئے اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہوتا تو آپ کے بیٹے زندہ رہتے لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں بخاری شریف حدیث نمبر (6194)

حدیث نمبر10

مسلم شریف میں سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فانی آخر الانبياء وان مسجدى آخر المساجد: بے شک میں تمام انبیاء سے آخر میں آیا ہوں اور میری مسجد ( انبیاء کی بنائی مساجد میں سے ) آخری مسجد ہے۔ (مسلم شریف حدیث نمبر 1394)

حدیث نمبر 11

جب خیبر فتح ہوا تو رسولِ اکرم، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک کالے رنگ کا در از گوش ( لمبے کانوں والا جانور یعنی گدھا دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے باتیں کیں ، وہ بھی آگے سے جواب دیتا رہا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا: تیر انام کیا ہے؟ عرض کی : یزید کا بیٹا شہاب اللہ پاک نے میرے دادا کی نسل سے 60 دراز گوش ( یعنی گدھے) پیدا کئے، کلهُمْ لَا يَرْكَبُه الانبى ان سب پر صرف و صرف نبی ہی سُوار ہوئے، وَقَدْ كُنْتُ أَتَوقع أَنْ تَرَكْبَنِي لَمْ يَبْقَ مِنْ نَسْلِ جَدِي غَيْرِى وَلَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ غَيْرُكَ یعنی مجھے یقینی توقع تھی کہ حضور مجھے اپنی سواری سے شرف بخشیں گے کیونکہ اب میرے دادا کی نسل سے میرے سوا

کوئی باقی نہیں اور انبیائے کرام علیہم السلام میں آپ کے سوا کوئی نبی باقی نہیں ہے۔ چنانچہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس خوش بخت در از گوش کوقبول فرمالیا اور اس کا نام یغفور رکھا۔ (تاریخ مدینہ )

حدیث نمبر 12

حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور عقیدہ ختم نبوت

طبقات الکبریٰ میں روایت ہے: اللہ پاک نے اپنے نبی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پر نازل ہونے والے صحیفوں میں لکھا تھا: (اے ابراہیم !) آپ کی اولاد میں بہت سارے قبیلے (Tribes) ہوں گے، یہاں تک کہ نبی امی تشریف لے آئیں گے (وہ نبی اقی کون ہیں؟ ارشاد ہوا 🙂 الَّذِي يَكُونُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاء وہ جو سب سے آخری نبی ہوں گے۔

رد قادیانیت کورس کلاس1

قادیانیوں کےہتھکنڈے

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے