صدقہ فطر کے مکمل اور تفصیلی احکام

صدقہ فطر کی تعریف:

    بعد ِ رمضان نمازِ عید کی ادائیگی سے قبل دیا جانے والا صدقہ  واجبہ ،صدقہ فطر کہلاتا ہے ۔

صدقہ فطر کی فضیلت:

حضرتِ سیدنا عبد اللہ بن ثعلبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال،، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا،” ہرچھوٹے یا بڑے ،آزاد یاغلام ، مرد یا عورت ،غنی یا فقیر میں سے ہر ایک پر نصف صاع گندم یا جَو(صدقہ فطر) ہے ، غنی کو تواللہ عزوجل برکت عطا فرمائے گا جبکہ فقیرکو اللہ عزوجل اس سے زیادہ عطافرمائے گا جوکچھ اس نے راہِ خدا عزوجل میں دیا۔”

( سنن ابی داؤد، کتا ب الزکاۃ ، باب من روی نصف صا ع من قمح ،رقم ۱۶۱۹، ج ۲، ص ۱۶۱)

 

حضرتِ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ خاتِمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃُ الِّلْعٰلمین، شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین، مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امين صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے روزہ دار کی لغو اور بدکلامی کے کفارے اور مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر کو فر ض فرمایا ہے ، اس لئے اگر اسے نماز ِعید سے پہلے ادا کیا جائے تو یہ ایک مقبول صدقہ ہے اور نماز عید کے بعد ادا کیا جائے تو یہ عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔” (ابن ماجہ، کتا ب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر ،رقم ۱۸۲۷،ج۲، ص ۳۹۵)

حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں، کہ” صدقہ فطر ادا کرنے میں تین فضلتیں ہیں؛ پہلی روزے کا قبول ہونا، دوسری سکرات موت میں آسانی اور تیسری عذاب قبرسے نجات۔”  (المبسوط للسرخسی، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۲، ص۱۱۴ )

صدقہ فطرکی ادائیگی کی حکمت

    حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ،رء وف رَّحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے روزوں کو لغو اور بے حیائی کی بات سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھلانے کے لیے صدقہ فطر مقرر فرمایا ۔

 (سنن ابی داؤد،کتاب الزکوٰۃ ،باب زکوٰۃ الفطر،الحدیث۱۶۰۹،ج۲،ص۱۵۷)

    حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: یعنی فطرہ واجب کرنے میں 2حکمتیں ہیں ایک تو روزہ دار کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی۔ اکثر روزے میں غصہ بڑھ جاتا ہے تو بلاوجہ لڑ پڑتا ہے، کبھی جھوٹ غیبت وغیرہ بھی ہو جاتے ہیں ،رب تعالیٰ اس فطرے کی برکت سے وہ کوتاہیاں معاف کر دے گا کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔دوسرے مساکین کی روزی کا انتظام۔  (مرأۃ المناجیح، ج۳، ص۴۳)

صدقہ فطر کی تاریخ اور کس سن ہجری میں واجب ہو؟

     ۲؁ھ میں رمضان کے روزے فرض ہوئے اور اسی سال عید سے دو دن پہلے صدقہ فطرکا حکم دیا گیا۔ (الدرالمختار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۲ )

صدقہ فطر کا شرعی حکم

    صدقہ فطر دینا واجب ہے۔  (الدرالمختار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۲) صحیح بخاری میں عبداﷲ بن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ عليہ وسلم نے مسلمانوں پر صدقہ فطرمقرر کیا۔

 (صحيح البخاري،،کتاب الزکوٰۃ، باب فرض صدقۃ الفطر، الحديث: ۱۵۰۳،ج۱، ص۵۰۷. ملخصا)

صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟

     صدقہ فطر ہر اس آزاد مسلمان پر واجب ہے جو مالک ِ نصاب ہو اوراسکانصاب حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو ۔  (ما خوذ ازالدر المختار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۳۶۵) مالِکِ نِصاب مَرد اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچّوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل )اولاد ہے(چاہے پھر وہ پاگل اولاد بالِغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرے۔ہاں! اگر وہ بچّہ یامَجْنُونخود صاحِبِ نِصاب ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فِطْرہ اداکردے۔

(الفتاوی الھنديۃ، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۲)

وجوب کا وقت

    عیدکے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوتا ہے، لہٰذا جو شخص صبح ہونے سے پہلے مر گیا یاغنی تھا فقیر ہوگیا یا صبح طلوع ہونے کے بعد کافر مسلمان ہوا یا بچہ پیدا ہوا یا فقیر تھا غنی ہوگیا تو واجب نہ ہوا اور اگر صبح طلوع ہونے کے بعد مرا یا صبح طلوع ہونے سے پہلے کافر مسلمان ہوا یا بچہ پیدا ہوا یا فقیر تھا غنی ہوگیا تو واجب ہے۔

(الفتاوی الھندۃ، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر، ج۱، ص۱۹۲)

زکوٰۃ اور صدقہ فطر میں فرق

    زکوٰۃ میں سال کا گزرنا، عاقل بالغ اور نصاب ِ نامی (یعنی اس میں بڑھنے کی صلاحیّت )ہونا شرط ہے جبکہ صدقہ فطر میں یہ شرائط نہیں ہیں۔چنانچہ اگر گھر میں زائد سامان ہو تو مالِ نامی نہ ہونے کے باوجود اگر اس کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہے تو اس کے مالک پر صدقہ فطر واجب ہوجائے گا۔زکوٰۃ اور صدقہ فطر کے نصاب میں یہ فرق کیفیت کے اعتبار سے ہے۔

 (ما خوذ ازالدر المختار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۲۰۷،۲۱۴،۳۶۵)

فطرہ کی ادائیگی کی شرائط

    صدقہ فطر میں بھی نیت کرنا اور مسلمان فقیر کومال کا مالک کر دینا شرط ہے۔

 (ردالمحتار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۸۰)

نابالغ پر صدقہ فطر

    نابالغ اگر صاحب ِ نصاب ہوتو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے۔ اس کا ولی اسکے مال سے فطرہ ادا کرے ۔  (ما خوذ ازالدر المختار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۲۰۷،۲۱۴۔۳۶۵)

ماں کے پیٹ میں موجود بچے کا فطرہ

     جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہو،اس کی طرف سے صدقہ فطر اداکرنا واجب نہیں۔

 (الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر،ج۱،ص۱۹۲)

چھوٹے بھائی کا فطرہ

    اگر بڑا بھائی اپنے چھوٹے غریب بھائی کی پرورش کرتا ہوتو اس کاصدقہ فطر مالدار باپ پر واجب ہے نہ کہ بڑے بھائی پر۔فتاوی عالمگیری میں ہے :”چھوٹے بھائی کی طرف سے صدقہ و اجب نہیں اگرچہ وہ اس کی عیال میں شامل ہوں۔ ”

 (الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر ،ج۱،ص۱۹۳)

صدقہ فطر کے لئے روزہ شرط نہیں

    صدقہ فطر واجب ہونے کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں ،لہٰذا کسی عذر مثلاًسفر مرض ،بڑھاپے یا معاذ اللہ(عَزَّوَجَلَّ ) بلاعذر روزے نہ رکھنے والا بھی فطرہ ادا کریگا ۔

 (ما خوذ ازالدر المختار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۳۶۷)

بچے پاکستان میں اور باپ ملک سے باہرہو تو

     اگر کسی کے چھوٹے بچے پاکستان میں رہتے ہیں اور باپ ملک سے باہر ہے تو اس صورت میں باپ پر چھوٹے (نابالغ) بچوں کے صدقہ فطر کے گیہوں کی قیمت بیرونِ ملک کے حساب نکالنا واجب ہے۔ فتاوی عالمگیری میں ہے، صدقہ فطر میں صدقہ دینے والے کے مکان کا اعتبار ہے چھوٹے بچوں کے مکان کا اعتبار نہیں۔

 (الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر ،ج۱،ص۱۹۳ ملخصا)

مہما نوں کا فطرہ

    عید پر آنے والے مہمانوں کا صدقہ فطر میزبان ادا نہیں کریگااگر مہمان صاحب ِ نصاب ہیں تو اپنا فطرہ خود ادا کریں ۔  (فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجَّہ،ج۱۰،ص۲۹۶)

اگر کسی کا فطرہ نہ دیا گیا ہوتو؟

     نا بالغی کی حالت میں باپ نے بچہ کا صدقہ فطر ادا نہ کیاتو اگر وہ بچہ مالک نصاب تھااور باپ نے ادا نہ کیا تو بالغ ہونے پرخود ادا کرے اوراگر وہ بچہ مالک نصاب نہ تھا تو بالغ ہونے پر اس کے ذمہ ادا کرناواجب نہیں۔

 (الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۵)

باپ نے اگر روزے نہ رکھے ہوں

     باپ جب مالک نصاب ہو اگرچہ اس نے رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں تو صدقہ فطر نابالغ بچوں کا اسی پر واجب ہے، نہ کہ ان کی ماں پر ۔

 (الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۷۔۳۶۸)

ماں پر بچوں کا فطرہ واجب نہیں

    اگر باپ نہ ہو توماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ۔

 (الدر المختار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۳۶۸)

یتیم بچوں کا فطرہ

    باپ نہ ہوتو اس کی جگہ دادا پراپنے غریب یتیم پوتے ،پوتی کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے جبکہ یہ بچے مالدار نہ ہوں۔

 (الدرالمختار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۸)

غریب باپ کے بچوں کا فطرہ

    باپ غریب ہوتو اس کی جگہ مالک نصاب دادا پراپنے غریب پوتے ،پوتی کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے جبکہ بچے مالدار نہ ہوں۔

 (الدرالمختار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۸)

نابالغ منکوحہ لڑکی کا فطرہ کس پر؟

     نابالغ لڑکی جو اس قابل ہے کہ شوہر کی خدمت کر سکے اس کا نکاح کر دیا اور شوہر کے یہاں اُسے بھیج بھی دیا تو کسی پر اس کی طرف سے صدقہ واجب نہیں، نہ شوہر پر نہ باپ پر اور اگر قابل خدمت نہیں یا شوہر کے یہاں اُسے بھیجا نہیں تو بدستور باپ پر ہے پھر یہ سب اس وقت ہے کہ لڑکی خود مالکِ نصاب نہ ہو، ورنہ بہرحال اُس کا صدقہ فطر اس کے مال سے ادا کیا جائے۔

 (الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۶۸)

شب عید بچہ پیدا ہواتو…؟

    شب ِ عید بچہ پیدا ہوا توس کا بھی فطرہ دینا ہوگاکیونکہ عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے ،اور اگر بعد میں پیدا ہوا تو واجب نہیں۔

(الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکوٰۃ،باب الثامن ،ج۱،ص۱۹۲)

شبِ عید مسلمان ہونے والے کا فطرہ

    عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے ،لہٰذا اگر اس وقت سے پہلے کوئی مسلمان ہوا تو اس پر فطرہ دینا واجب ہے اور اگر بعد میں مسلمان ہواتوواجب نہیں۔

 (الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکوٰۃ،باب الثامن ،ج۱،ص۱۹۲)

مال ضائع ہو جائے تو…..؟

    اگرصدقہ فطر واجب ہونے کے بعد مال ہلاک ہوجائے توپھر بھی دیناہوگاکیونکہ زکوٰۃوعشر کے برخلاف صدقہ فطر ادا کرنے کے لئے مال کا باقی رہنا شرط نہیں۔

(الدر المختار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۳۶۶ )

فوت شدہ شخص کا فطرہ

     اگر کسی شخص نے وصیت نہ کی اورمال چھوڑ کر مر گیا توورثہ پراس میت کے مال سے فطرہ ادا کر نا واجب نہیں کیونکہ صدقہ فطر شخص پر واجب ہے مال پر نہیں، ہاں! اگر ورثہ بطورِ احسان اپنی طرف سے ادا کریں تو ہوسکتا ہے کچھ اُن پر جبر نہیں ۔

 (الفتاوٰ ی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب فی صدقۃ الفطر،ج۳، ص۱۹۳)

شادی شدہ بیٹی کافطرہ

     اگر شادی شدہ بیٹی باپ کے گھر عید کرے تو اس کے چھوٹے بچوں کا فطرہ ان کے باپ پر ہے جبکہ عورت کا نہ باپ پر نہ شوہر پر ، اگر صاحب ِ نصاب ہے تو خود ادا کرے ۔

(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجَّہ ،ج۱۰، ص۲۹۶)

بلااجازت فطرہ ادا کرنا

    اگربیوی نے شوہرکی اجازت کے بغیراس کافطرہ اداکیاتوصدقہ فطر ادا نہیں ہوگا ۔جب کہ صراحۃ یا دلالۃ اجازت نہ ہو۔

 (ملخَصٍّاالفتاوٰ الھندیۃ،کتاب الزکوٰۃ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر،ج۱،ص۱۹۳ )

     اگرشوہرنے بیوی یا بالغ اولاد کی اجازت کے بغیران کافطرہ اداکیاتو صدقہ فطر ادا ہوجائے گا بشرطیکہ وہ اس کے عیال میں ہو۔

 (ماخوذ ازالدر المختارو رد المحتار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۳۷۰)

     اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلااجازت ناممکن ہے ہاں اجازت کے لیے صراحۃ ہونا ضرور نہیں دلالت کافی ہے مثلاً زید اس کے عیال میں ہے، اس کا کھانا پہننا سب اس کے پاس سے ہونا ہے،اس صورت میں ادا ہو جائے گا۔

(ماخوذ از فتاوی رضویہ ، ج۲۰، ص۴۵۳)

صدقہ فطر کن چیزوں سے ادا ہوتا ہے

     گندم یا اس کا آٹا یا ستونصف صاع،کھجور یا منقٰی یا جَویا اس کا آٹایا ستو ایک صاع ۔ان چار چیزوں( یعنی گیہوں ،جو ، کھجور،منقی) کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلّہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جَو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جَو کی ہو۔( بہار شریعت حصہ پنجم، ص۹۳۹ ملتقطًا)

صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت

    بہتر یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے۔

 (الدرالمختار، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۳، ص۳۷۶)

صدقہ فطررمضان میں اداکردیا تو؟

فتاویٰ عالمگیری میں ہے :اگر عید الفطر سے پہلے فطرہ ادا کریں تو جائز ہے ۔

 (الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر ،ج۱،ص۱۹۳ )

رمضان سے بھی پہلے صدقہ فطر ادا کرنا

     اگر صدقہ فطر رمضان سے بھی پہلے ادا کر دیا توجائز ہے۔

 (الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر ، ج۱،ص۱۹۲ ملخصا)

پیشگی فطرہ دیتے وقت صاحب نصاب ہونا

     اگر نصاب کا مالک ہونے سے پہلے صدقہ دے دیا پھر نصاب کا مالک ہوا تو صحیح ہے ۔

 (الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر ، ج۱،ص۱۹۲ ملخصا)

اگرعید کے بعد صدقہ فطردیاتو؟

    اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّت فرماتے ہیں:اس (یعنی صدقہ فطر)کے دینے کا وقت واسع ہے عید الفطر سے پہلے بھی دے سکتا ہے اور بعد بھی، مگر بعد کو تاخیر نہ چاہیے بلکہ اَولی یہ ہے کہ نمازِ عید سے پہلے نکال دے کہ حدیث میں ہے صاحبِ نصاب کے روزے معلق رہتے ہیں جب تک یہ صدقہ ادا نہ کریگا۔ (فتاویٰ ٰرضویہ،ج۱۰،ص۲۵۳)

فطرہ کس کو دیاجائے؟

    صدقہ فطرکے مصَا رِف وُہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں۔(عالمگیری ج۱ ص۱۹۴) یعنی جِن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فِطْرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کو فِطْرہبھی نہیں دے سکتے۔ لہٰذا زکوٰۃ کی طرح صدقہ فطر کی رقم بھی حیلہ شرعی کے بعد مدارس وجامعات اور دیگر دینی کاموں میں استعمال کی جاسکتی ہے۔  (فتاوٰی امجدیہ ج۱ص۳۷۶ملخصًا)

کسے صدقہ فطر نہیں دے سکتے؟

     جنہیں زکوٰۃنہیں دے سکتے انہیں صدقہ فطر بھی نہیں دے سکتے ۔چنانچہ ساداتِ کرام کو صدقہ فطر بھی نہیں دے سکتے۔

 (الدر المختارو رد المحتار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،ج۳،ص۳۷۹ )

ایک شخص کا فطرہ ایک ہی مسکین کو دینا

    بہتر یہ ہے کہ ایک ہی مسکین یا فقیر کو فطرہ دیا جائے اگر ایک شخص کا فطرہ مختلف مساکین کو دے دیا تب بھی جائز ہے اسی طرح ایک ہی مسکین کومختلف اشخاص کا فطرہ بھی دے سکتے ہیں۔

 (الدر المختارو رد المحتار،کتاب الزکوٰۃ،باب صدقۃ الفطر،مطلب فی مقدارالفطرج۳،ص۳۷۷ ملخصاً)

 

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے