سونے پر گزشتہ سالوں کی زکوۃ کا حکم جبکہ سونا باقی نہ رہا ہو؟

سوال:  شادی مارچ  2007 کو ہوئی۔مارچ  2009 تک 17 تولہ سونا تھا ، اور مارچ  2011 تک 12 تولہ رہ گیا ۔ پھر مارچ 2011 کے بعد سارا  بیچ دیا ۔ اس کے بعد سے کچھ بھی نہیں ہے، گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کی ہے کیا زکوٰۃ کی ادائیگی اب کرسکتے ہیں ؟ کریں گے تو کس وقت کے حساب سے؟

جواب:    پوچھی گئی صورت میں جس سال کی زکوٰۃ رہتی ہے ، اُسی سال کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے  ، موجودہ سال کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا ، کیونکہ صاحبِ نصاب شخص کے مالِ زکوٰۃ پر قمری سال کے اعتبار سے جس دن سال مکمل ہو ، زکوٰۃ کی ادائیگی میں اُسی دن اور اُسی سال کی قیمت کا اعتبار ہوتا ہے خواہ اُسی سال ادا کرے یا کسی اور سال ادا کرے ۔ اب تک جو زکوٰۃ اد انہیں کی اس کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ تاخیر پر  توبہ بھی کرنی ہوگی۔

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں :” سونے کے عوض سونا، چاندی کے عوض چاندی زکوٰۃ میں دی جائے ، جب تو نرخ کی کوئی حاجت ہی نہیں، وزن کا چالیسواں حصہ دیا جائے گا، ہاں اگر سونے کے بدلے چاندی یا چاندی کے بدلے سونا دینا چاہیں ، تو نرخ کی ضرورت ہوگی، نرخ نہ بنوانے کے وقت کا معتبر ہو نہ وقتِ ادا کا،اگر ادا سال تمام کے پہلے یا بعد ہو جس وقت یہ مالکِ نصاب ہُوا تھا ، وہ ماہ عربی و تاریخ وقت جب عود کریں گے ، اس پر زکوٰۃ کا سال تمام ہوگا ، اس وقت کا نرخ لیا جائے گا۔ “( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 133 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    زکاۃ کی ادائیگی میں  بلاعذرِ شرعی  تاخیر کرنا،  ناجائز و گناہ ہے ۔چنانچہ امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :” اب تک جو ادا میں تاخیر کی  بہت زاری کے ساتھ اُس سے توبہ فرض ہے اور آئندہ ہر سال تمام پر فوراًادا کی جائے ۔“(فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 129 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے