تکبر
تکبر کی تعریف:
تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۹۶صفحات پر مشتمل کتاب ’’تکبر‘‘ صفحہ ۱۶ پر ہے: ’’خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔چنانچہ رسول اکرم، نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النِّاسِ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔‘‘[1]
امام راغب اصفہانی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْغَنِی لکھتے ہیں : ’’تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔‘‘[2] جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے ’’مُتَکَبِّر ‘‘ اور مغرور کہتے ہیں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۷۵،۲۷۶)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے: (اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳)) (پ۱۴، النحل: ۲۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بیشک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
ایک اور مقام پر فرماتا ہے: (وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(۳۷))(پ۱۵، بنی اسرائیل: ۳۷) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور زمین میں اتراتا نہ چل بیشک تو ہرگز زمین نہ چیر ڈالے گا اور ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو نہ پہنچے گا ۔‘‘
کافر متکبرین کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:( فَادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ(۲۹))(پ۱۴، النحل: ۲۹) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اب جہنّم کے دروازوں میں جاؤ کہ ہمیشہ اس میں رہو تو کیا ہی برا ٹھکانا مغروروں کا۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۷۶)
حدیث مبارکہ، متکبرین کے لیے بروزقیامت رسوائی:
حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں جہنم کے بُوْلَس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی، انہیں طِیْنَۃُ الْخَبَّال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔‘‘[3] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۷۶، ۲۷۷)
تکبر کی تین قسمیں اور ان کا حکم:
(1)…’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مقابلے میں تکبر۔‘‘ تکبر کی یہ قسم کفر ہے جیسے فرعون کا کفر کہ اس نے کہا تھا: (اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى٘ۖ(۲۴)فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَ الْاُوْلٰىؕ(۲۵))(پ۳۰، النٰزعات: ۲۴۔ ۲۵) ترجمۂ کنزالایمان: ’’میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں تو اللہ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا۔‘‘
فرعون کی ہدایت کے لیے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت سیِّدُنا ہارون عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجا مگر اس نے ان دونوں کو جھٹلایا تو رب عَزَّ وَجَلَّ نے اسے اور اس کی قوم کو دریائے نیل میں غرق کردیا۔[4]
مفسرین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرعون کو مرے ہوئے بیل کی طرح دریا کے کنارے پر پھینک دیا تاکہ وہ باقی ماندہ بنی اسرائیل اور دیگر لوگوں لیے عبرت کا نشان بن جائے اور ان پر یہ بات واضح ہوجائے کہ جو شخص ظالم ہو اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی جناب میں تکبر کرتا ہواس کی پکڑ اس طرح ہوتی ہے کہ اسے ذلت واہانت کی پستی میں پھینک دیا جاتا ہے۔‘‘[5]
(2)…’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر۔‘‘ تکبر کی یہ قسم بھی کفر ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ تکبر جہالت اور بغض وعداوت کی بنا پر رسول کی پیروی نہ کرنا یعنی خود کو عزت والا اور بلند سمجھ کر یوں تصور کرنا کہ عام لوگوں جیسے ایک انسان کا حکم کیسے مانا جائے ، جیسا کہ بعض کفار نے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بارے میں حقارت سے کہا تھا:( اَهٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا(۴۱)) (پ۱۹، الفرقان: ۴۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’کیا یہ ہیں جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا۔‘‘ اور یہ بھی کہا تھا: (لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ(۳۱)) (پ۲۵، الزخرف: ۳۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن ان دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر۔‘‘
(3)…’’بندوں کے مقابلے میں تکبر۔‘‘ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علاوہ مخلوق میں سے کسی پر تکبر کرنا، وہ اس طرح کہ اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو حقیر جان کر اس پر بڑائی چاہنا اور مساوات یعنی باہم برابری کو ناپسند کرنا۔ یہ صورت اگرچہ پہلی دو صورتوں سے کم تر ہے مگر یہ بھی حرام ہے اور اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے کیونکہ کبریائی اور عظمت بادشاہ حقیقی عَزَّ وَجَلَّ ہی کے لائق ہے نہ کہ عاجز اور کمزور بندے کے۔‘‘[6] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۷۷،تا،۲۷۹)
تکبر کے آٹھ اسباب وعلاج:
(1)… تکبر کا پہلا سبب علم ہے کہ بعض اوقات انسان کثرت علم کی وجہ سے بھی تکبر کی آفت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ مُعَلِّمُ الْمَلَکُوْت کے منصب تک پہنچنے والے شیطان کے انجام کو یاد رکھے کہ اس نے تکبر کرتے ہوئے اپنے آپ کو حضرت سیِّدُنا آدم صِفِیُّ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل قرار دیا تھا مگر اسے اس تکبر کے نتیجے میں قیامت تک کی ذلت ورسوائی ملی اور وہ جہنم کا حقدار ٹھہراکہیں یہ تکبر ہمیں بھی تباہ وبرباد نہ کردے۔
(2)… تکبر کا دوسرا سبب عبادت وریاضت ہے کہ بندہ کثیر عبادت وریاضت کے سبب اس مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ سوچے میں اگر بہت زیادہ عبادت کرتا ہوں تو اس میں میرا کیا کمال ہے؟ یہ تو اس ربّ عَزَّ وَجَلَّ کا کرم ہے ، نیز عبادت تو وہی مفید ہوگی جس میں نیت درست ہو، تمام شرائط پائی جاتی ہوں۔ بندہ اپنے آپ کو یوں ڈرائے کہ کیا خبر یہ عبادت جس پر میں گھمنڈ کررہا ہوں وہ میرے اس تکبر کے سبب ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہونے کے بجائے مردوو ہوجائے اور جنت میں داخلے کے بجائے جہنم میں داخلے کا سبب بن جائے۔
(3)… تکبر کا تیسرا سبب مال ودولت ہے کہ جس کے پاس کار، بنگلہ، بینک بیلنس اور کام کاج کے لیے نوکر چاکر ہوں وہ بھی بسااوقات تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کا یقین رکھے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسے یہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے جانا پڑے گا، کفن میں تھیلی ہوتی ہے نہ قبر میں تجوری، پھر قبر کو نیکیوں کا نور روشن کرے گا نہ کہ سونے چاندی اور مال ودولت کی چمک دمک۔ لہٰذا اس فانی اور ساتھ چھوڑ جانے والی شے کی وجہ سے تکبر میں مبتلا ہو کر اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کو کیوں ناراض کیا جائے؟
(4)… تکبر کا چوتھا سبب حسب ونسب ہےکہ بندہ اپنے آباء واجداد کے بل بوتے پر اکڑتا اور دوسروں کو حقیر جانتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنا یہ مدنی ذہن بنائے کہ دوسروں کے کارناموں پر گھمنڈ کرنا عقلمندی نہیں بلکہ جہالت ہے اور آباء واَجْداد پر فخر کرنے والوں کے لیے جہنم کی وعید ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرمایا: ’’اپنے فوت شدہ آباؤ اجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آجانا چاہیے کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں ، یا وہ قومیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہوجائیں گی جو اپنی ناک سے گندگی کو کریدتے ہیں ،اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباء پر فخر کرنا ختم فرمادیا ہے، اب آدمی متقی ومؤمن ہوگا یا بدبخت وبدکار، سب لوگ حضرت آدم (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ) کی اولاد ہیں اور حضرت آدم (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام )کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘[7]
(5)… تکبر کا پانچواں سبب عہد ہ ومنصب ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنا یہ ذہن بنائے کہ فانی پر فخر نادانی ہے کیونکہ عزت ومنصب کب تک ساتھ دیں گے؟ جس منصب کے بل بوتے پر آج اکڑتے ہیں ، کل کو چھن گیا تو انہی لوگوں سے منہ چھپانا پڑے گا جن سے آج تحقیر آمیز سلوک کرتے ہیں۔ آج جن لوگوں پر چیخ چیخ کرکم چلاتے ہیں ہوسکتا ہے کل ان سے ہی کوئی ایسا کام پڑجائے جو ہمارے تکبر کو خاک میں ملا دے۔اس لیے کیسا ہی منصب یا عہدہ مل جائے پر اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہیے۔
(6)… تکبر کا چھٹا سبب کامیابی وکامرانی ہےکہ جب کسی کو پے درپے کامیابیاں ملتی ہیں تو وہ ناکام ہونے والے لوگوں کو حقیر سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ یہ نہ بھولے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا، بلندیوں پر پہنچنے والوں کو اکثر واپس پستی میں بھی آنا پڑتا ہے، ہرکمال کو زوال ہے، کامیابی پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ اسے اپنا کمال تصور کرتے ہوئے دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔ بندہ یہ بھی ذہن بنائے کہ جسے میں کامیابی سمجھ رہا ہوں وہ فقط دنیا کی کامیابی ہے جو ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی، اصل کامیابی تو یہ ہے کہ میں اس دنیا سے ایمان سلامت لے جاؤں ، دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کروں ، اپنے رب عزوجل کو راضی کرلوں۔
(7)… تکبر کا ساتواں سبب حسن وجمال ہےکہ بندہ اپنے ظاہری حسن وجمال کے سبب تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی ابتداء وانتہاء پر غور کرے کہ میرا آغاز ناپاک نطفہ اور انجام سڑا ہوا مردہ ہونا ہے، نیز عمر کے ہر دور میں حسن یکساں نہیں رہتا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی ماند پڑجاتاہے، یہ بھی پیش نظر رکھے کہ میرے اسی حسن وجمال والے بدن سے روزانہ پیشاب، پاخانہ، بدبودار پسینہ، میل کچیل اور دیگر گند نکلتا ہے، میں اپنے ہاتھوں سے پاخانہ وپیشاب صاف کرتا ہوں تو کیا اِن چیزوں کے ہوتے ہوئے فقط ظاہری حسن وجمال پر تکبر کرنا زیب دیتا ہے؟ یقیناً نہیں۔
(8)… تکبر کا آٹھواں سبب طاقت وقوت ہے کہ جس کا قد کاٹھ اچھا ہو، کھاتا پیتا اور سینہ چوڑا ہو تو وہ بسا اوقات کمزور جسم والے کو حقیر سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کا یوں محاسبہ کرے کہ طاقت وقوت اور پھرتی تو جانوروں میں بھی ہوتی ہے بلکہ انسان سے زیادہ ہوتی ہے تو پھر اپنے اندر اور جانوروں میں مشترکہ صفت پر تکبر کرناکیسا؟ حالانکہ ہمارے جسم کی طاقت وقوت کا تو یہ حال ہے کہ تھوڑا سا بیمار ہوجائیں تو طاقت کا سارا نشہ اتر جاتا ہے، معمولی سی گرمی برداشت نہیں ہوتی، اگر خوانخواشتہ اس تکبر کی وجہ سے کل بروز قیامت ربّ عَزَّ وَجَلَّ ناراض ہوگیا اور جہنم میں شدید آگ کا عذاب دیا گیا تو اُسے کیسے برداشت کریں گے؟[8]
تکبر جیسے موذی مرض کی مزید تفصیلات کے لیے تبلیغ قران وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۹۶ صفحات پر مشتمل کتاب ’’تکبر‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۷۹تا ۲۸۳)
[1] ۔۔۔۔مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۱، حدیث: ۱۴۷۔
[2] ۔۔۔۔ مفردات الفاظ القرآن، کبر، ص۶۹۷۔
[3] ۔۔۔۔ ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج۴، ص۲۲۱، حدیث: ۲۵۰۰۔
[4] ۔۔۔۔ الحدیقۃ الندیۃ، البحث الثانی من المباحٹ۔۔۔الخ، ج۱، ص۵۴۹۔
[5] ۔۔۔۔ الزواجر، الباب الاول فی الکبائر۔۔۔الخ، ج۱، ص۷۱۔
[6] ۔۔۔۔ احیاء العلوم، کتاب ذم الکبروالعجب، بیان المتکبر۔۔۔الخ، ج۳، ص۴۲۴ ملخصا۔
[7] ۔۔۔۔ ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل الشام والیمن، ج۵، ص۴۹۷، حدیث: ۳۹۸۱۔
[8] ۔۔۔۔ احیاء العلوم، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان ما بہ التکبر،ج۳، ص۴۲۶ ماخوذا۔