زکوٰۃ کی رقم سے افطاری کروانا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ کیا زکوٰۃ کی رقم سے افطاری کروائی جا سکتی ہے،مثلاً :ایک شخص اپنی زکوٰۃ کی رقم سے افطاری کا کچھ سامان خریدے اور کھانا بنوائے،پھر اپنے گھر میں اہلِ علاقہ کو (جس میں امیر و غریب سب شامل ہوں) بلائے اور انہیں وہیں بٹھا کر افطاری کروائے اور کھانا بھی کھلا دے،تو کیا اس طرح زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟

جواب: اچھی نیت کے ساتھ مسلمانوں کو افطاری کروانا اور کھانا کھلانا یقیناً ثواب کا باعث ہے،احادیثِ طیبہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں،لیکن سوال میں ذکر کردہ طریقے کے مطابق افطاری کے لیے زکوۃ کی رقم خرچ کرنا شرعاً جائز نہیں ۔ زکوٰۃ غریبوں کے لیے ہے، نہ کہ افطار پارٹیوں میں امیر و غریب سب میں اڑانے کا نام ہے۔ اس طرح کرنے سے زکوٰۃ  ادا نہیں ہو گی ،کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کسی مستحقِ زکوٰۃ کو مالِ زکوٰۃ کا مالک بنانا شرط ہے،ورنہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ۔اب پوچھی گئی صورت میں ایک تو مستحقینِ زکوٰۃ کا فرق کیے بغیر امیر و غریب سبھی  افطاری میں شامل ہو رہے ہیں اور دوسرا عام طور پر اس طرح کی افطار پارٹیوں میں کھانے والوں کو کھانے کا مالک نہیں بنایا جاتا،بلکہ انہیں فقط کھانے کی اجازت دی جاتی ہے، لہذا اس صورت میں زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوگی۔

   زکوٰۃ اس شخص کو دے سکتے ہیں،جس کے پاس سونا چاندی، روپیہ پیسہ ،مالِ تجارت یا حاجتِ اصلیہ(یعنی وہ چیزیں جن کی انسان کوحاجت رہتی ہے،جیسے رہائش گاہ،خانہ داری کےوہ سامان جن کی حاجت ہو،سواری اورپہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ زندگی) سے زائد سامان یا یہ سب مل کر اتنے نہ ہوں کہ جن کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے برابر بنے،نیز اس کا تعلق بنو ہاشم سے بھی نہ ہو۔(بنو ہاشم سے مراد حضرت عباس، حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عقیل اور حضرت حارث بن عبد المطلب رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی پاک اولادیں ہیں)۔

   فقراء کو زکوٰۃ دینے کے حوالےسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ان اللہ قد افترض علیھم صدقۃ فی اموالھم، تؤخذ من اغنیائھم وترد فی فقرائھم‘‘ترجمہ:بے شک اللہ پاک نے مسلمانوں پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے،جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء کو دی جائے گی۔(صحیح البخاری،کتاب الزکوٰۃ،باب وجوب الزکوٰۃ،ج1،ص187،مطبوعہ کراچی)

   زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحقِ زکوٰۃ کو مالک بنانا شرط ہے۔چنانچہ تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:’’یشترط ان یکون الصرف (تملیکا) لا اباحۃ‘‘ترجمہ:زکوۃ کی ادائیگی بطورِ تملیک ہونا شرط ہے،بطورِ ابا حت کافی نہیں۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار،ج3،ص341،مطبوعہ پشاور)

   بطورِ دعوت کھانا کھلانے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’عوض زرِ زکوٰۃ کے، محتاجوں کو کپڑے بنا دینا ،انہیں کھانا دے دینا ،جائز ہے اور اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ،خاص روپیہ ہی دینا واجب نہیں ،مگر ادائے زکوٰۃ کے معنی یہ ہیں کہ اس قدر مال کا محتاجوں کو مالک کر دیا جائے،اسی واسطے اگر فقراء و مساکین کو مثلاً :اپنے گھر بلا کر کھانا پکا کر بطریقِ دعوت کھلا دیا،تو ہر گز زکوٰۃ ادا نہ ہو گی، کہ یہ صورت اباحت ہے،نہ کہ تملیک،یعنی مدعو اس طعام کو ملکِ داعی پر کھاتا ہے اور اس کا مالک نہیں ہو جاتا۔۔ہاں اگر صاحبِ زکوٰۃ نے کھانا خام، خواہ پختہ مستحقین کے گھر بھجوا دیا یا اپنے ہی گھر کھلایا، مگر بتصریح پہلے مالک کر دیا،تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج10،ص70تا71،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

غیر سیدہ کااپنے سیدبچوں کوزکوۃ سے کھلانا

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے