جس کی پانچ نمازیں اور وتر قضا ہو گئے وہ صاحب ترتیب رہے گا یا نہیں؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص کی پانچ نمازیں اور وتر قضا ہو گئے ہوں، تو اسے صاحب ترتیب کہا جائےگایانہیں ؟کیاعشاء کے فرض ووترکودوالگ الگ نمازیں شمارکریں گے یادونوں کو ملا کرایک ہی نمازشمارکی جائے گی ؟نیزاگریہ دونوں مل کرایک ہی نماز ہے،تویہ وضاحت فرمائیں کہ قضانمازوں میں جب وترکوالگ سے قضاکرنے  کاحکم ہے،توترتیب ساقط ہونے میں اس کااعتبارکیوں نہیں کیاگیا؟
جواب: جس کی پانچ فرض نمازیں اوروتر قضا ہوئے ہوں ، وہ صاحبِ ترتیب ہی ہے، اس پر نمازوں میں ترتیب لازم ہے۔ترتیب اس شخص سے ساقط ہوتی ہے، جس کی وتر کے علاوہ چھ وقتی فرض نمازیں قضا ہوگئیں ہوں اور چھٹی کا وقت بھی نکل گیا ہو۔وترکومسقط ِترتیب(ترتیب ساقط کرنے والا)قرارنہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ وترکاشمارایک دن اورایک رات کی نمازوں میں ہی ہوتا ہے اوراس کے لیے دوسری  نمازوں کی طرح  اپنا کوئی الگ وقت مقرر نہیں، بلکہ عشاءکا وقت ہی اس کا وقت ہے ۔اس لیےجس شخص کی ایک دن اورایک رات کی نمازیں قضاہوئیں، تواگرچہ اس کے ذمہ وترکے ساتھ چھ نمازیں لازم ہیں، لیکن وقت کے اعتبارسے ترتیب کوساقط کرنے والی کثرت حاصل نہ ہونے کی وجہ سےیہ صاحب ترتیب ہی رہے گا۔

    صاحب ترتیب سے جن صورتوں میں ترتیب ساقط ہوجاتی ہے، ان صورتوں کو  ذکر کرتے ہوئے علامہ حسن بن عمار شرنبلالی رحمۃاللہ تعالی علیہ  نور الایضاح میں لکھتے ہیں:”اذا صارت الفوائت ستا غیر الوتر فانہ لا یعد مسقطا ً“ترجمہ:(صاحبِ ترتیب سے اس وقت ترتیب ساقط ہوجاتی ہے )جب وتر کے علاوہ فوت شدہ نمازیں چھ ہوجائیں، کیونکہ وتر کو ترتیب ساقط کرنے والا شمار نہیں کیا جاتا۔

(امداد الفتاح شرح نور الایضاح،صفحہ498،مطبوعہ کوئٹہ)

    درمختار میں ہے :”اوفاتت ست اعتقادیۃ“ترجمہ:جس شخص کی چھ فرضِ اعتقادی نمازیں فوت ہوجائیں(وہ صاحبِ ترتیب نہیں رہے گا۔)

     اس کے تحت  حاشیہ طحطاوی علی درمختارمیں ہے:”خرج العملی وھوالوترفان الترتیب بینہ وبین غیرہ وان کان فرضالکنہ لایحسب مع الفوائت انتھی حلبی وکانہ لانہ لاوقت لہ باستقلالہ“ترجمہ:( اعتقادی کی قیدسے) فرض عملی یعنی وترخارج ہوگئے ، کیونکہ وتراورفرض کے درمیان اگرچہ ترتیب فرض ہے ،لیکن فوت شدہ نمازوں میں وترکوشمارنہیں کیاجاتا،حلبی ۔وترکوشمارنہ کرنے کی وجہ گویا یہ ہے کہ اس کے لیے مستقل الگ سے کوئی وقت نہیں ہے ۔

(حاشیۃ طحطاوی علی درمختار،جلد1،صفحہ305،مطبوعہ کوئٹہ )

    درمختارکی اسی عبارت کے تحت ردالمحتارمیں ہے :”خرج  الفرض العملی وھوالوتر، فان الترتیب بینہ وبین غیرہ وان کان فرضالکنہ لایحسب مع الفوائت ای لانہ لاتحصل بہ الکثرۃ المفضیۃ للسقوط لانہ من تمام وظیفۃ الیوم واللیلۃ ،والکثرۃ لاتحصل الابالزیادۃ علیھامن حیث الاوقات اومن حیث الساعات ، ولامدخل للوترفی ذلک ۔امداد“ ترجمہ:(اعتقادی کی قیدسے)فرضِ عملی یعنی وترخارج ہو گئے ،کیونکہ وتراورفرض کے درمیان اگرچہ ترتیب فرض ہے،لیکن فوت شدہ نمازوں میں وترکوشمارنہیں کیاجاتا،اس لیے کہ وترکے قضا ہونے سے  ترتیب کے سقوط تک پہنچانے والی کثرت حاصل نہیں ہوتی ،کیونکہ وترایک دن اورایک رات کے وظائف کاہی حصہ ہے،جبکہ اوقات  و ساعات کے اعتبارسے کثرت  ایک دن ،ایک رات پرزیادتی سے حاصل ہوتی ہے ، وترکااس زیادتی میں کوئی دخل نہیں ۔ “

 (ردالمحتار مع الدر المختار،جلد2، صفحہ 638،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

 

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے