سوال:کوئی شخص اگربیرون ملک ہواوروہاں سے اپنی طرف سے قربانی کرنے کے لیے رقم بھیجے کہ میری طرف سے یہاں پاکستان میں قربانی کردوتوکیاہم یہاں پاکستان میں نمازِعیدپڑھ کراس کی طرف سے جانورقربان کرسکتے ہیں؟حالانکہ بیرون ملک میں ابھی دس ذوالحجہ کی صبح صادق نہیں ہوئی؟
جواب:سوال میں بیان کردہ صورت میں بیرون ملک سے اپنی قربانی کے لیے وکیل بنانے والے شخص کی طرف سے قربانی کرناجبکہ جس جگہ وہ رہتاہے وہاں ابھی دس ذوالحجہ کی صبح طلوع نہ ہوئی ہوتواس کی طرف سے قربانی کرناجائزنہیں اوراگرکردی تواس کی طرف سے واجب قربانی ادانہ ہوگی کیونکہ قربانی کے وجوب کا سبب وقت ہے اور وہ وقت دس ذوالحجہ کی صبح صادق طلوع ہونے سے شروع ہوتا ہے،لہذا دس ذوالحجہ کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے قربانی ابھی واجب ہی نہ ہوئی،توجب قربانی واجب ہی نہ ہوئی تووجوب سے پہلے ہی کی گئی قربانی سے،بعد میں واجب ہونے والی قربانی ادانہیں ہو گی،اگرچہ پاکستان میں دیہات میں قربانی کرنے کی صورت میں صبح صادق طلوع ہوچکی ہو،یاشہرمیں قربانی کرنے کی صورت میں یہاں شہر کے کسی مقام پر عید کی نماز ہو چکی ہو۔
ہاں البتہ بیرون ملک والا شخص جہاں موجود ہے،اگر وہاں دس ذوالحجہ کی صبح صادق کا وقت ہوگیاہے،تو اب پاکستان کے دیہات میں قربانی کرنے کی صورت میں یہاں دس ذوالحجۃ الحرام کوطلوع فجر کے بعداورشہر میں قربانی کرنے کی صورت میں یہاں اس شہر کے کسی مقام پر نماز عید ہو چکنے کے بعدقربانی کی،تو ادا ہو جائے گی اگرچہ جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے، جہاں وہ شخص موجود ہے ، وہاں ابھی تک عید کی نماز نہ ہوئی ہو، کیونکہ اس میں قربانی والی جگہ کا اعتبار ہے، قربانی کرنے والے کے شہر کا اعتبار نہیں ہے۔
قربانی کے وجوب کاسبب وقت ہونے کے حوالے سے درمختارمیں ہے:
”و سببھا الوقت و ھو أیام النحر“
اوراس کے وجوب کا سبب وقت ہےاور وہ ایام النحر کا وقت ہے۔
اس عبارت کے تحت علامہ شامی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:
” ذکر فی النھایۃ أن سبب وجوب الأضحیۃ و وصف القدرۃ فیھا بأنھا ممکنۃ أو میسرۃ لم یذکر لا فی أصول الفقہ و لا فی فروعہ، ثم حقق أن السبب ھو الوقت، لأن السبب إنما یعرف بنسبۃ الحکم إلیہ و تعلقہ بہ، إذ الأصل فی إضافۃ الشئ إلی الشئ أن یکون سبباً “
ترجمہ : نہایہ میں ذکر کیا ہے کہ قربانی کے وجوب کاسبب اوراس میں ممکن اورآسان ہونے کے اعتبارسے قدرت کا وصف ذکر نہیں کیا گیا، نہ اصول فقہ میں اور نہ ہی اس کی فروعات میں۔ پھر انہوں نے تحقیق فرمائی کہ اس کے وجوب کا سبب وقت ہے، اس لیے کہ سبب کی پہچان، اس کی طرف حکم کی نسبت اور اس کے ساتھ حکم کے تعلق سے ہوتی ہے، اس لیے کہ ایک شے کی دوسری شے کی طرف اضافت میں اصل یہی ہے کہ وہ دوسری شے کے لیے سبب ہو۔
(الدر المختار مع رد المحتار، جلد 9 ص 520)
درمختار مع ردالمحتار میں ہے:
’’أول وقتھا بعد الصلوۃ إن ذبح فی مصر وبعد طلوع فجر یوم النحر إن ذبح فی غیرہ والمعتبر مکان الأضحیۃ لا مکان من علیہ‘‘
یعنی قربانی کا وقت نماز کے بعد ہے، اگر شہر میں کرے اور اگر گاؤں میں ذبح کرنی ہو تو عید کے روز صبح طلوع ہونے کے بعد اور قربانی میں ذبح کرنے کی جگہ معتبر ہے، قربانی کرنے والے کی جگہ معتبر نہیں۔
(الدر المختار مع ردالمحتار، جلد9،ص 527تا529)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’إن الرجل إذا کان فی مصر و أھلہ فی مصر آخر فکتب إلیھم لیضحوا عنہ فإنہ یعتبر مکان التضحیۃ فینبغی أن یضحوا عنہ بعد فراغ الإمام من صلاتہ فی المصرالذی یضحی عنہ فیہ‘‘
یعنی اگرایک شخص ایک شہر میں ہو اور اس کے اہل دوسرے شہر میں ہوں،وہ اپنے گھر والوں کو کہےکہ میری طرف سے قربانی کریں، توبے شک اس میں قر بانی والی جگہ کا اعتبار کیا جائے گا، یعنی اس کے اہل کے لیے اجازت ہو گی کہ وہ جس شہر میں قربانی کر رہے ہیں، اس شہر میں امام کے نمازعیدسے فارغ ہونے کے بعد، اس شخص کی طرف سے قربانی کر دیں۔ (فتاوی عالمگیری، جلد5، ص 296)
بہارِ شریعت میں ہے:
”قربانی واجب ہونے کاسبب وقت ہے، جب وہ وقت آیااورشرائط وجوب پائے گئے، قربانی واجب ہو گئی“۔
(بہار شریعت، جلد3، حصہ 15،ص333)
مزیداسی میں ایک مقام پرفرمایا:
”قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے“۔
(بہار شریعت، جلد3، حصہ 15،ص336)
مزید ایک اور جگہ فرمایا:
’’یہ جو شہر اور دیہات کا فرق بتایا گیاہے، یہ مقام قربانی کے لحاظ سے ہے، قربانی کرنے والے کے اعتبار سے نہیں، یعنی دیہا ت میں قربانی ہو تو وہ وقت ہے ،اگرچہ قربانی کرنے والا شہر میں ہو اور شہر میں ہو تو نماز کے بعد ہو،اگرچہ جس کی طرف سے قربانی ہو وہ دیہات میں ہو‘‘۔ (بہار شریعت، جلد3، حصہ 15،ص337)
(کتاب قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)