کیا بغیر سوئے تہجد کی نماز ہوسکتی ہے؟

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ تہجد کی نماز کے لیے سونا ضروری ہے ؟ اگر کوئی شخص رات دیر تک جاگتا رہے اور رات کے آخری پہر میں تہجد کی نیت سے نوافل پڑھے ، تو وہ تہجد کے ہوں گے یا نہیں ؟
 
 
جواب: تہجد کے لیے عشاء کے بعد سونا ضروری ہے ، لہٰذا اگر کوئی شخص رات دیر تک جاگتا رہے اور بغیر سوئے رات کے آخری پہر میں تہجد کی نیت سے نوافل پڑھ لے ، تو وہ تہجد کے نہیں ہوں گے ، مطلقاً صلوٰۃ اللیل کے ہوں۔

    تفسیر معالم التنزیل میں ہے:” والتهجد لا يكون الا بعد النوم “ ترجمہ:تہجد سونے کے بعد ہی ہوتی ہے ۔

( مختصر تفسیر البغوی ، پارہ 15 ، سورۃ الاسراء ، آیت 79 ، جلد 4 ، صفحہ 534 ، مطبوعہ ریاض )

    المعجم الکبیر میں ہے:” عن الحجاج بن عمرو بن غزية صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: انما التهجد المرء يصلی الصلاة بعد رقدة “ ترجمہ:حجاج بن عمر بن غزیہ رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول ہیں ، ان سے مروی ہے:آپ فرماتے ہیں کہ تہجد یہ ہے کہ بندہ قدرے سو نے کے بعد نماز ادا کرے ۔

( المعجم الکبیر ، جلد 3 ، صفحہ 225 ، مطبوعہ قاھرہ )

    ردالمحتار میں منقول ہے:”وقد ذكر القاضي حسين من الشافعية أنه في الاصطلاح التطوع بعد النوم “ ترجمہ:امام قاضی حسین شافعی فرماتے ہیں:اصطلاح میں سونے کے بعد نوافل پڑھنے کو تہجد کہتے ہیں ۔

(رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الصلوٰۃ ، مطلب فی صلوٰۃ الليل ، جلد 2 ، صفحہ 566 ، مطبوعہ کوئٹہ )

    صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں:” نمازِ عشاء پڑھ کر سونے کے بعد جب اٹھے ، تہجد کا وقت ہے اور یہ وقت طلوعِ فجر تک ہے اور بہتر وقت بعدِ نصف شب ہے اور اگر سویا نہ ہو ، تو تہجد نہیں اگرچہ جو نفل پڑھے جائیں ، صلوٰۃ اللیل انھیں شامل کہ صلوٰۃ اللیل تہجد سے عام ہے ۔ “

( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 1 ، صفحہ 243 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

کیا رات میں تنہا نفل پڑھنے والا بلند آواز سے قراءت کر سکتا ہے؟

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے